تھر میں بھوک، پیاس اور پانی وہ المیہ ہے جو صدیوں پرانا ہے۔”تھرپارکر سندھ کے جنوب میں واقع صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے،جس کا ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے،اس کا کل رقبہ تقریبا 21ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 13 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔کسی زمانے میں یہاں راجہ کی ریل چلا کرتی تھی، لہٰذاتھر کی زندگی باقی سندھ سے کٹی ہوئی تھی۔
اس وجہ سے تھر کی زبان، ثقافت اور رسم ورواج باقی ماندہ سندھ سے الگ ہیں۔ قدیم دور میں یہ علاقہ سرسوتی دریا کے ذریعے سیراب ہوتا تھا۔بعد ازاں” مہرانوں نہر“ کے ذریعے اسے سیراب کیا جاتا رہا۔اس کے علاوہ تھر پارکر کی سیرابی کیلئے دریائے سندھ سے ایک بڑی نہر ”باکڑو“نکلا کرتی تھی ،جسے سترھویں صدی میں کلہوڑا حکمرانوں نے سیاسی مخالفت کی بنیاد پر بند کروا دیا، جس کے سبب تھر مزید خشک سالی کا شکار ہوا۔ان جزوی اقدامات کے باوجود پانی کی دستیابی تھر کا صدیوں سے اہم مسئلہ ہے۔
تھر کے حوالے سے مندرجہ بالا اقتباس ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی نئی کتاب”تھر،پیاس اور پانی“سے لیا گیا ہے۔کتاب کا عنوان اپنے اندرتھر میں بھوک، پیاس بیماری ، سسکتی ہوئی انسانیت اور حکمرانوں کی سنگدلی اور بے حسی کی مکمل داستان سموئے ہوئے ہے۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ جو ایک معالج، مورخ، مصنف اور حقیقت نگاربھی ہیں، نے ”تھر پیاس اور پانی“ کے تین لفظوں میں تھر کی مظلومیت کی پوری کہانی بیان کردی ہے۔
ہمارے مہربان جناب جبار مرزا کے مطابق ”روحانی اعتبار سے تھر کی مسلم آبادی پیری مریدی کے زیر اثر ہے، الیکشن مئی 2013 ءمیں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 230 تھر پارکر ٹو جہاں سے پیپلز پارٹی کے پیر نور محمد شیر جیلانی نے 61903 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی اُن کے مدمقابل ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 59852 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن میں رہے۔یہ سارے ووٹ انہیں نظریاتی یا پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ روحانی حلقوں کی سپورٹ کی وجہ سے ملے تھے۔اسی طرح این اے 229 تھر پارکر ون میں بھی پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے فقیر محمد بلالانی 88218 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ دوسری پوزیشن پر ارباب تگاچی فواد رزاق نے آزاد حیثیت میں 86097 ووٹ لیے ۔تھرپارکر کے یہ دونوں حلقے دراصل ارباب خاندان کے ہیں اگر کوئی دوسرا کامیاب ہوبھی تو اسے اربابوں کی حمایت ضرور حاصل ہوتی ہے۔“
ارباب خاندان گزشتہ ایک صدی سے تھر کی سیاست میں اہم کردار کرتا رہا ہے،ارباب کے علاوہ تھر کی دیگر مسلم برادریوں میں جونیجو،راحموں،سمیچواوربجیر شامل ہیں جبکہ ہندو برادریوں میں میگواڑ، کولہی، بھیل، لہانا، مہراج اور راجپوت شامل ہیں،تھر کی 80 فیصد آبادی ریگستان میں آباد ہے ،اُن کی ثقافت، بودو باش، رہن سہن اور طرز حیات مسلم وغیر مسلم سب کایکساں ہے، بھوک، ننگ اور غربت نے تھر میں صدیوں سے ڈیرا ڈالا ہوا ہے ۔ علاقے کی مجموعی زندگی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم اور سسکتی ہوئی انسانیت کا نوحہ سناتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اِن تمام تلخ حقائق کا فہم وادراک رکھنے کے باوجود ہر حکومت نے تھر کے حوالے سے بے رخی ،لاپروائی ، سرد مہری اور سنگدلی کا مظاہرہ کیاہے۔آج بھی تھرکے70 فیصد مراکزصحت بند پڑے ہیں،گزشتہ دنوں قحط سے متاثرہ علاقے تھر کی ایک مقامی عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کو قحط کی صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ ارسال کی،جس میں کہا گیا ہے کہ عمر کوٹ کے صحرائی علاقوں کی 25 دیہات کے 35450 خاندانوں کے 167230 افراد متاثر ہوئے ہیں،اِس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے
صحرائی علاقوں میں 29 مراکز صحت میں سے 18 مراکز ڈاکٹر نہ ہونے کی باعث بند پڑے ہیں، جبکہ سول اسپتال عمر کوٹ میں 46 ڈاکٹروں کی اسامیاں 2007 سے خالی ہیں اور ضلع بھر میں 401 اسامیوں میں سے صرف 130 پر ڈاکٹرز کام کررہے ہیں۔سیشن جج نے رپورٹ میں صحت کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ضلع کی سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو غیرمعیاری ادویات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ سول اسپتال عمرکوٹ کی ایکسرے مشین گزشتہ دو سال سے خراب ہے۔
Sindh
خیال رہے کہ تھر میں غذائی قلت کے علاوہ بھی کئی مسائل اور ہیں، جن میں بے روزگاری، صحت کی ناکافی سہولتیں، ذرائع نقل و حمل کی عدم دستیابی جس کے باعث بیشتر لوگ اسپتالوں تک رسائی نہیں رکھتے ۔ اکیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور تقریباً تیرہ لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل تھرپارکر صوبہ سندھ کے 23 اضلاع میں سے سب سے پسماندہ ضلع ہے۔ پینے کے صاف پانی سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں کا فقدان اِس صحرائی علاقے کا مستقل مسئلہ ہے۔جن پر توجہ دینے کی شدید ضرورت کے باوجود ملک کی 67 سالہ تاریخ میں کسی حکومت نے بھی اِس طرف توجہ نہیں دی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال دو سال بعد یہاں بارشیں نہ ہونے کے سبب شدید قحط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ،جس کے ساتھ ساتھ مختلف مہلک بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں اور سینکڑوں افراد فاقہ کشی اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اِن میں چھوٹے بچوں کی تعداد خاص طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ ضلع تھر پارکر میں غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتوں پہ تاحال قابو نہیں پایا جا سکاہے۔رواں ہفتے کے ابتدائی تین دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد 28 ہوگئی ہے جبکہ اِس سال کے پونے گیارہ مہینوں میں قحط اور بیماریوں کے سبب تھر میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 900 سے زائد ہے ،صرف 16 دن کے دروان غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 24 ہے۔ تھرکے سرکاری اسپتالوں میں غذائی قلت اور اِس سے متعلقہ بیماریوں کے باعث سال 2011 ءسے تاحال 1608 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
جبکہ ذرائع ابلاغ میں اِس قسم کی رپورٹوں کا بھی چرچا رہا کہ پچھلے سال صحرائے تھر کے علاقے میں مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مہیا ہونے والی اشیاءخورو نوش گوداموں میں پڑی پڑی ضائع ہو گئیں اور انہیں مستحقین میں تقسیم نہیںکیا جا سکا۔یہ بھی سننے میں آیا کہ مخیراداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی پانی کی بوتلیں بھی متاثرین تک پہنچنے کے بجائے راستے ہی میں غائب ہوگئیں۔جب میڈیا نے تین سو گندم کی بوریاں مٹی میں ملانے کی خبر دی تو سرکاری وضاحت جاری کی گئی کہ تین سو نہیں دو سو بیانوے بوریاں تھیں۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بدانتظامی ،لاپروائی اوربے حسی کی وجہ سے یہ اشیاءضرورت مندوں کے استعمال میں آنے کے بجائے ضائع ہو جائیں اور پڑے پڑے سڑ جائیں۔ہمارا ماننا ہے کہ یہ بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اور تمام صوبائی حکومتیں اپنے گوداموں میں اناج اور دیگر اشیاءخورو نوش کا ذخیرہ رکھتی ہیں تا کہ انہیں وقت پڑنے پر استعمال میں لایا جا سکے۔
لیکن افسوس صوبے کے انتظامی سربراہ ذمہ داری محسوس کرنے کے بجائے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی طرح عجیب وغریب بیانات جاری کررہے ہیں،کبھی فرماتے ہیں کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں بلکہ غربت سے ہوئیں ہیں، کبھی کہتے ہیںبچوں کی اموات زچگی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔تو کبھی کہتے ہیں کہ مرنے والوں کو خدا ہی بچاسکتا ہے، انسان کے بس کی بات نہیں۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ تھر میں قحط کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں، جن کی عدم توجہی سے موجودہ صورت حال پیدا ہوئی ہے،کبھی وہ اپنی حلیف جماعت کے سابق صوبائی وزیر پر کوتاہی کا الزام لگاتے ہیں اورکبھی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ متاثرین کو دیتے ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے آپس میں تقسیم کرلو۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ اگر حکومت سندھ کے ان موقف کو تسلیم بھی کرلیا جائے
تو بھی وہ کسی طور اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی حکومت اور حکمران ِوقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ غربت ، بھوک ، افلاس اور بے روزگاری کا خاتمہ کرے اور صوبے کی تمام صوبے عوام کو یکساں بنیادی سہولیات فراہم کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سندھ حکومت کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ تھر میں اموات غربت کی وجہ سے ہوئی ہیں تو کروڑوں کی تعداد میں غریب لوگ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بستے ہیں۔ اُن کے مسائل بھی اسی طرح سے ہیں، یہ درست ہے کہ اُن کے حالات تھر جیسے نہیں ، لیکن پھر بھی انہیں بھی اِس قسم کے حالات کا سامنا تو ہو گا، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ملک کے طول و عرض میں تھر جیسی صورت حال نہیں ہے، اِس لیے تھر کے مسئلے کو اُس علاقے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تھر ِاس قسم کے حالات سے پہلی بار دو چار نہیں ہوا بلکہ اکثر اسے اِس قسم کے حالات سے وابستہ پڑاہے۔گزشتہ تین سالوں سے تھر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی چھائی ہوئی ہے،لیکن اِس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ تھر قدرتی وسائل سے محروم ہے، یہ دنیا کا واحد زرخیز صحرا ہے جہاں بارش کی صورت میں لوگ اپنی اور اپنے مویشیوں کی ضرورت کیلئے بعض فصلیں بھی کاشت کرلیتے ہیں، یہ زمین معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے،گرینائٹ اور دوسرے قیمتی پتھر وں کے علاوہ کوئلے کے وسیع ذخائر صرف تھر ہی نہیں پورے ملک کیلئے ترقی اور خوش حالی کی ذریعہ بن سکتے ہیں، اِس علاقے میں گیس اور تیل کے ذخائر کی موجودگی کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں
اِس لیے تھر میں ذرائع آمد ورفت کو بہتر بناکر نیز صحت اور تعلیم کی خاطر خواہ سہولتیں فراہم کرکے مقامی آبادی کے لئے ترقی کی راہیں کھولی جاسکتی ہیں۔صرف ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اچھی منصوبہ بندی اور اُس پر سنجیدگی اور ذمہ داری سے عمل درآمد کیا جائے۔اِس سلسلے میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ڈاکٹر صاحب اور اُن کے رفیقوں نے حکومتی امداد اور سرپرستی کے بغیر تھر کے لوگوں کیلئے قابل مثال کام کرکے ثابت کیا ہے کہ نیت صالح ہو ، عزم جواں ہو اور اخلاص موجود ہو تو کوئی رکاوٹ آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ہماری صاحب ثروت اور مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالیں، ساتھ ہی ہماری سندھ اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران سے بھی استدعا ہے کہ وہ تھر کو تباہی وبربادی سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف فوری توجہ دیں تاکہ بھوک،پیاس ،بے روزگاری اور بیماری سے تھر کے معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا روح فرسا سلسلہ ختم ہو اور یہ مظلوم خطہ بھی قومی ترقی اور خوش حالی کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہوسکے۔