تحریر : عبداللہ قمر کسی بھی فرد، قوم یا ریاست کی لیے نظریات کی حیثیت بھی وہی ہے جو ضرورت و اہمیت پانی کی پودے کے لیے ہے۔ اگر پودے کی بروقت آبیاری ہوتی رہے تو پودا بڑھتے بڑھتے ایک قدآور اور مظبوط درخت بن جاتا ہے۔ لیکن اگر ذرا سی بھی غفلت برتی جائے تو وہی درخت وہیں گل سڑ کر خاک ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی قوم اپنے مقصد اور نظریات سی غافل ہو جائے وہ قوم بھی اسی طرح گل سڑ کر خاک ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی قوم اپنے نظریات اپناتے ہوئے اپنے مقاصد پر ڈٹ جائے وہ قوم اپنے مقصد میں ضرور سرخرو ہوتی ہے یور کامیابیاں اس کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔
دنیا کے نقشے پر پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے موجود ہے۔ اور نظریئہ پاکستان میں ہزاروں سال کے عرصے تاریخ مخفی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں تعین سے پہلے آئیے ذرا نظریئہ پاکستان کی کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس میں کون سی تاریخ دفن ہے۔ اور اس تاریخ میں آج کی نوجوان نسل کے لیے کونسا خزانہ محفوظ ہے۔ تاریخ کسی بھی قوم کی تعمیرِ نو میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ ایک آئینے کی مانند ہے کہ جس کو سامنے رکھ کے قومیں اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرتی ہیں۔ حال اور ماضی کا یہی موازنہ قوموں کے مستقبل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل اِس قوم کے تابناک ماضی کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں تو امید ہے کہ انہیں مستقبل کے لیے ایک ایسی شاہراہ عمل نظر آئے گی کہ جو کہکشاں سی کہیں ذیادہ درخشاں ہو گی۔ انشاءاللہ
بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک موقع پر نظریہ پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ “پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا”۔ قائد کے اس فرمان کے مطابق پاکستان کی ریاست تو اسی روز بن گٰئی تھی جب مسلمانوں نے ایک مظلوم بہن کی پکار پر لبّیک کہا اور ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عظیم نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کی قیادت میں سرزمینِ ہند پر قدم رکھا اور پھر ہندو سامراجوں کو مسلمانوں اپنے قدموں تلے روند کر “لااِلٰہ الاللہ” کی فتح کا ترنگا لہرایا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت کی ریاستِ پاکستان کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مسلمانوں نے کئی ہزار سال برصغیر پر راج کِیا لیکن اس کے بعد ایک ایسا وقت بھی آسمان نے دیکھا کہ اسی سرزمین پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا جس سرزمین پر مسلمانوں نے ہزاروں سال شاندار حکومت کی تھی۔ مسلمانوں اِس زوال کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ جس منہج (نظریہ اسلام) کی بنیاد پر مسلمان کھڑے ہوئے تھے اور کفّار کے سرغنوں، ہندو پنڈتوں کی گردنیں اتارتے ہوئے سومنات کے مندروں ڈھاتے ہوئے ہندوستان کے قلب تک جا پہنچے تھے مسلمان آہستہ آہستہ اس منہج سے دور ہوتے چلے گئے تھے۔ مسلمان اپنے مذہب سے اس قدر غافل ہو گئے تھے کہ مسلمانوں اور ہندووں معاشرتی رسومات، چال ڈھال اور ظاہری شکل و صورت میں کوئی ذیادہ فرق نہ رہا۔پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کس طرح مسلمانوں پر زوال آیا مسلمان زمانے میں رسواء یو کر رہ گئے۔ یہ ہماری تاریخ کی ایک تلخ سچّائی ہے جس سے ہم نہیں پھیر سکتے مگر ہمیں اپنی تاریخ کے اس پہلو سے سبق سیکھنا ہو گا تاکہ مستقبل میں ترقی اور عروج کی جانب ہماری راہ ہموار ہو سکے۔
قارئین کرام! آج اگر ہم صرف پاکستان کی تاریخ کا بالترتیب مطالعہ کریں اور موازنہ کریں کہ جب قوم زندہ دِل تھی جب نوجوانوں کے اذہان و قلوب میں نظریہ پاکستان زندہ تھا تب ہم نے دشمن کو کس طرح ما بھگایا اور جب قوم دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی تخلیقِ پاکستان کے مقصد سے غافل تھی تب کس انداز سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ ذیادہ
گہرائی میں جائے بِنا ہم 1965 کی جنگ کے منظرنامے پر سرسری نظر دوڑائیں تو بآسانی یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ جنگ صرف پاکستان کی مسلح افواج نے نہیں لڑی بلکہ اس جنگ میں قوم بھی صف آراء تھی۔ جنرل ایوب کا ریڈیو پر آنا تھا کہ پوری کی پوری قوم نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی۔ جس سے پاک فوج کی پشت محفوظ ہی نہیں بلکہ مظبوط بھی ہوئی۔ستّرہ دن یہ قوم بھی فوج کے شانہ بشانہ لڑی جس کا نتیجہ یہ نکلا کے انڈین افواج بھرکس نکل گیا اور جوتے کھا کے تب یہ وہاں سے بھاگے۔لیکن کچھ وقت ہی عرصے کے بعد کی صورتحال دیکھیں کہ 1971 میں کس طرح مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، وطنِ عزیز دو لخت ہو گیا اور ہماری تاریخ پر ایک سیاہ نشان چھوڑ گیا۔اس وقت جو ہمیں مشکلات اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ قوم سیاسی و لسانی تعصبات کی بھینٹ چڑھ چکی تھی، قوم مختلف دھڑوں میں تقسیم تھی اور نظریہ پاکستان سے غافل تھی اس بعد سب نے اُس وقت نظریاتی کمزوریوں کے باعث جو ایک خلیج حائل ہوئی اُس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ 1971 میں انڈیا نے مکتی باہنی کو سپّورٹ کِیا اور مشرقی پاکستان کو الگ کِیا جس وہ آج تک انکار کرتے آئے ہیں مگر آج نریندر مودی اِس بات کا اقرار کر چکا ہے مکتی باہنی اور یہ سب اِنہی کا کِیا دھرا ہے۔
Zarb e Azb
قارئین کرام! ہمارے روایتی اور ازلی دشمن “بھارت” کے نظریات اور عزائم آج بھی وہی ہیں جو 1971 میں تھے۔ وہ آج بھی پاکستان کے حصّے بخرے کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ آج بھی وہ پاکستان کے اندر مکتی باہنیاں لانچ کر رہا ہے خواہ وہ ٹی ٹی پی کی شکل میں ہوں یا ایم کیو ایم۔ سلام ہے پاک فوج کی بہادری کو اور آئی ایس آئی کی عظمت جنہوں دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ لیکن توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ ضربِ عَضب یا ردّالفساد سے اِن تحریکوں کا سر تو کچل دیا گیا مگر ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے قوم کو (خصوصاً نوجوانوں کو) کردار ادا کرنا ہو گا۔ دشمن کے ناپاک اِرادوں کو ناکام بنانے اور پاکستان کے دفاع اور استحکام کے لیے اس قوم کے اذہان و قلوب میں پھر سے وہی نظریہ اُجاگر کرنا ہو گا جس کے تحت یہ ملک حاصل کیا گیا۔ آج قوم کو وہی کردار ادا کرنا چاہیئے جو 65 میں ادا کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کا قلع قمع کرنے کی بھی ضرورت ہے جو پاکستان کے اندر بیٹھ کر پاکستان کی نظریاتی اور روحانی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہماری نوجوان نسل دو قومی نظریے سے آشنا ہو گی۔
“کامن کلچر” اور روشن خیال، آزاد پاکستان کے نام پر اِس قوم کے شاہینوں کی پرواز کو محدود کیا جا رہا ہے اگر اس کو بروقت روکا نا گیا اور نظریہ پاکستان کو اجاگر نا کیا گیا تو یہ بات واضح ہے مستقبل 71 سے ذیادہ مختلف نہ ہو گا۔ اس لیے نوجوانوں اور طلبہ کو حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے اپنا کِردار متعیّن کرنا ہو گا اورنظریاتی محاذ پر پاک فوج کے شانہ بشانہ پاکستان کے نظریاتی سپاہی بن کے کھڑے ہونا ہو گا۔