تحریر : خان فہد خان 23مارچ کو ایک قومی دن کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن نظریاتی طور پر پاکستان معرض وجود میں آ یا تھا ۔23مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس جو مینٹوپارک میں منعقد ہوا ۔یہی وہ دن ہے جس دن کا سورج نئی روشن کرنیں لے کر طلوع ہوا۔ قرارداد میں مسلمانوں نے اپنی جداگانہ حیثیت کو ظاہر کیااور مسلمانوں کے لیے الگ وطن(پاکستان) کا مطالبہ کیا۔یہ فیصلہ جذباتی یا غصے میں نہیں بلکہ مسلمانوں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا۔ مسلمانوں نے اس تاریخی قرارداد کے ذریعے اپنی منزل کاتعین کر لیا تھا۔اس منزل کے حصول کیلئے مسلمان اب ہر قربانی اور ایثار کے لیے تیار تھے۔23 مارچ 1940کونظریاتی طور پر پاکستان بن گیا تھا۔
برصغیر کے مسلمان اکابرین مسلسل اس فکر میں تھے کہ کیسے اب اس کو نظریے کو حقیقت کے روپ میں دھاریںاورمسلم عوام کے لیے پُر سکون ومحفوظ ماحول فراہم کریں۔ مسلمانوںکو نظر آرہا تھا کہ اب ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندوئوں کے رام راج نظام تلے دب جائیں گے اور اپنی شناخت کھوبیٹھیں گے جبکہ مسلمانوں کا دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔مسلمان اس نظام کو عملی طورپر نافذ دیکھنا چاہتے تھے لیکن انگریزوں کا نظام اور ہندو ئوں کہ رسم ورواج ،تہذیب وثقافت مختلف تھی۔انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی وجہ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی مسلمانوں کی عزت وابرو محفوظ نہ تھیں۔ مسلمانوں کو معاشرے میں کم تر سمجھا جاتا تھاعدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
مسلمانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے مسلمان اہل اور قابل ہو نے کہ باوجود کم تر اہلیت کے حامل ہندوئوں کے مقابلے میں ملازمت سے محروم رکھا جاتا ۔ہندوئوں کو کاروبار کے لیے خصوصی مراعات اور رعائتیں بھی دی جاتی لیکن مسلمانوں کے کاروبار بند کروادئیے اورمسلمان روزگار کے لیے پریشان تھے ۔ہندو مسلمانوں کو مساوی معاشی ،سیاسی ،سماجی ،اقتصادی درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔وہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔
Urdu
ہندو مسلمانوں کی زبان و ثقافت کو مٹانے کے در پے تھے اس لیے اُردو زبان کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان رائج کروا نے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا ۔مسلمان انگریزوں کی غلامی سے بامشکل نجات پانے کہ بعد ہندوئوں کے غلبے سے بھی نکلنا چا ہتے تھے ۔23 مارچ 1940 کو مسلمانوں میں ایک تحریک آ گئی اور انہوں نے اپنی ثقافتی قدروں کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد تیز کر دی اور اس مملکت کی آزادی کے لیے ہمارے ا سلاف نے بہت قربانیاں بھی دیں اور صرف سات سال بعد پاکستان عالم وجود میں آگیا۔دنیا کی تاریخ میں یہ واحد ملک ہے جو نظریاتی بنیاد پر آزاد ہوا۔یہ سب پاکستان کے حصول کی محرکات ہیںمگر افسوس !کہ آج ہمارے نا اہل حکمران محرکات کو بھول گئے ہیں۔
حالا ت آج بھی وہی ہیںبس کردار بدل گئے ہیں ۔لگتاہے آج پھر ہم کسی کے غلام ہیں اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس آزاد مملکت کو پھر انگریز سرکار کا غلام بنا دیا پھر سارا نظام انگریزوں کا ہے ۔انگریزوں کی پالیسیاں اور قانون سارے انگریزوں کے ہیں۔ آج پھر ہمارے مسلمان بھائیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مارا جا رہا ہے آج پھر مسلمان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ڈرون گرا گراکر سیکڑوں گھر تباہ کر دئیے ہیں۔کیا اُن سے متاثرہ خاندان کہ بزرگ،نوجوان ،بچے پاک حکومت کو خراج تحسین پیش کرئیں گے۔
آج پھرسازش سے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھلی جارہی ہے اورفرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے جس نے کئی خاندان اپنی لپیٹ میں لے لیے کئی گھر اُجاڑ دئیے ہیںہماری عزت آبرو آج بھی محفوظ نہیں۔ اب بھی عدل و انصاف نا م کی کوئی چیزنہیں امن وسکون کی گھڑی کو پکار رہے ہیں حکومت مسلمانو ں اور اقلیتوں دونوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔آج پھر وہی متحدہ ہندوستان جیسا ہی حال ہے ویسی ہی نوجوان انتہا پسندی کی نظر ہو گئے ہیں ۔آج بھی نوجوان روزگار کے لیے در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیںیاغربت سے تنگ آکر گلے کاٹ رہے ہیں ۔چند بڑے خاندانوں تک ہی ساری رعائیتں اور مراعات رہ گئی ہیں غریب کل بھی دو وقت کی روٹی کوپریشان تھا آج بھی ہے۔
Quaid e Azam
ترقی تو قائد اعظم ان لیڈران کے لیے چاہتے تھے جن کے محل بن چکے ہیںان بڑے بڑے نوابوں ،مہاراجوںکے پروٹوکول کے راستے میںاگر غریب غلطی سے آ جائے یا ان کے برابر چلے تواس کی جان تک لے لیتے ہیں۔ہمارے اکابر ین ان ہی کے وقار اور پُر سکون ماحول کے لیے قربان ہوئے تھے کہ ان روپوںکے پُجاریوں کی شان و شوکت بڑھے ۔آج بھی غیر زبان انگلش کی ترقی پر زور دیا جا رہا ہے اس کو ہم عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے ۔ آج ہمارے رہنما انگلش بول کر ،انگلش میں تقریریں کر کے فخر محسوس کرتے ہیں یہ اقتدار کے نشہ میں بھول گئے کہ اُردو زبان کی شناخت برقرار رکھنے کیلئے ہی تو وطن حاصل کیا تھا۔اُردو زبان ہی محرکات پاکستان میں سے ایک ہے۔ہماری میٹرک فیل اسمبلی کو انگلش میں تقریر یں جھاڑی جاتی ہیں۔
اللہ جانے وہ تقریر اراکین کے تو اوپر سے گزر جاتی ہیں معلوم نہیں کس کو سنائی جاتی ہیں۔ہمیں ذہنی غلامی سے نکلنا ہوگا کوئی بھی قوم اپنی زبان سے ہٹ کر ترقی نہیں کر سکی ۔ حکمرانوں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان کن وجوہات سے وجود میں آیا۔ہمارے اسلاف نے ہمارے روشن مستقبل کی خاطر اپنی جان مال کی قربانی دی ۔لیکن دُکھ ہوتا ہے آج حالات کو دیکھ کر کیا اس لیے اسلاف قربان ہو گئے کہ کل ان کی نسلیں دو وقت کی روٹی کی خاطراپنی عزت و ابرو بیچ دیں،امن کی دھائیاں دیتے رہیں،عدل انصاف کی خاطر در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے پھریںیا پھر اک نئے انقلاب کی دُھائی دیں۔
یہ سب حکمرانوں کو سوچنا ہو گا۔ اب حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ محرکات پاکستان کو مت بھولیں یہی وقت کا تقاضا ہے۔ حکمران عوام کیلئے روزگار اور امن وامان جیسی سہولیات ہر صورت ممکن بنائیںساتھ ساتھ اپنی زبان وثقافت کی بھی حفاظت کریں۔ورنہ نئے پاکستان کی ضرورت محسوس ہو تی رہے گی کیونکہ موجودہ پاکستان 1940کے نظریے کا پاکستان نہیں رہا۔23مارچ کا یہی تقاضا ہے کہ ہم محرکات پاکستان کو یاد رکھیں اور وطن کی حفاظت اور ترقی کیلئے اپنی ہر صلاحیت کو بروکار لائیں۔