پاکستان میں جرائم پیشہ افراد کے زیر استعمال غیر ملکی سمیں دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل وغارت گری اور سٹریٹ کرائمز میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان غیر قانونی اور غیر ملکی سمز کو پاکستانی حدود میں بلاک کرنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں موبائل فون کا بڑھتا ہوا استعمال عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کے لئے بھی رفتہ رفتہ درد سر بن گیا ہے۔ بھتہ خوری، منظم جرائم، قتل وغارت گری اور دھماکوں میں موبائل سمز کو بطور ڈیٹو نیٹر استعمال کرنے سے دہشت گردی کی وارتوں میں اضافے نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔
اگرچہ ان اسباب کے باعث کسی بھی بڑے ممکنہ حادثے سے بچنے کے لئے وقتا فوقتا موبائل فون کی عارضی بندش اور معطلی بھی کی جاتی رہی لیکن یہ وقتی اقدامات مسئلے کا مستقل حل ثابت نہ ہو سکے۔ پاکستان میں افغانستان کی موبائل سِموں کا بڑھتا استعمال جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے پاس ایسی غیر قانونی اور غیر ملکی سمز کو پاکستانی حدود میں بلاک کرنے کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
بیشتر بھتہ خور، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد ان غیر ملکی سمز کا سہارا لے کر اپنی مذموم کارروائیاں کرتے ہیں۔ تحقیقات پر یہ راز کھلتا ہے کہ فون سرحد پار سے کیا گیا۔ ایسی کئی غیر قانونی سمز کوئٹہ میں چمن، پشاور میں حیات آباد اور خانو بازار میں کھلے عام دستیاب ہیں جبکہ فاٹا میں یہ کاروبار زیر زمین بلا روک ٹوک جاری ہے۔ بلوچستان میں غیر قانونی سموں کے ذریعے اغوا برائے تاوان جبکہ بھتہ خور سب سے زیادہ یورپی سموں کا استعمال کرتے ہیں۔
ان سموں میں، ساؤتھ افریقا، بھارت، نیپال، بنگلا دیش، افغانستان اور انگلینڈ سمیت دیگر یورپی ممالک کی سموں کا استعمال بھی بے خوف و خطر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کسی قسم کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی اور دیگر ٹیلی کام کمپنیوں نے غیر ملکی موبائل کنکشنز کے استعمال کو روکنے کے لئے سروس بند کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ غیر ملکی ٹیلی کام کمپنیوں نے پی ٹی اے کو غیر ملکی موبائل کنکشن کے بارے میں معلومات دینے سے یکسر انکار کر دیا ہے۔