محض 6 ارب ڈالر قرضہ حاصل کر نے کے لیے ملک کو عملاً گروی رکھ دیا گیا ہے ، عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے تمام کڑی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے مہنگائی کا سونامی لایا جا رہا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف اور حکومتی زرائع میں چند شرائط پر مذاکرات جاری ہے جو ایک دو روز میں مکمل ہونے کے بعد اسے حتمی شکل دیئے جانے کا امکان ہے ۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ موجودہ مہنگائی کا طوفان سابقہ حکومتوں کی جانب سے لیئے گئے قرضوں کو ختم کرنے کے لیے بھر پا کیا گیا ہے اورمزید کہا کہ ہمیں بھی احساس ہے مگر سابقہ حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے ملک کا برا حال ہے اس لیئے ہمیں نت نئے ٹیکس لگا کر عوام پر اضافی بوجھ ڈالنا پڑرہاہے ، دوسری جانب یہ کہا جارہاہے کہ سابق حکمرانوں کے لادے گئے قرضوں کو اتار نے کے لیے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات میں جہاں اور کئی شرائط تے پائے وہاں آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان یہ شرط بھی تے پائی کہ حکومت پاکستان آئندہ دوسال کے لیے سات کھرب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرے گا ، اس شرط کو پورا کرنے کے لیے حکومت آئندہ ماہ جون کے آخر میں پیش کیے جانے والے نئے مالی سال کے بجٹ میں سیلز ٹیکس،انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پرعائد ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنا پڑے گا۔ حکومت پاکستان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR)کو راوں مالی سال میں انتالیس کھرب پچاس ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف دیا تھا جس کو آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑا کر56 کھرب پچاس ارب کردیا گیا ۔ چو نکہ سابق چیئر مین ایف بی آر حکومت کے بتائے ہوئے ہدف پورا کرنے میں ناکام نظر آئے تو حکومت نے ایف بھی آر کاچیئرمین ہی بدل ڈالا ،فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR)کے نئے چیئر مین شبیرزیدی کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ حکومت کے بتائے ہوئے ہدف کو پورا کریں ۔
پاکستان آئی ایم ایف کا سب سے پرانا مقروض ملک ہے ۔پاکستان کو آزاد ہوئے بہترواں سال جاری ہے ، ان بہترسالوں میں ماسوائے ضیاء الحق کے تمام ادوار میں پاکستان کی معشیت کو بچانے کے نام پر بیرونی قرضے لیئے گئے ہے ۔”پاکستان آئی ایم ایف کے نرغے میں”پہلی مرتبہ ایوب خان کے دور میں آیا ،آئی ایم ایف سے سب سے پہلے قرضہ سابق صدر جنرل ایوب خان کے دور میں لیا گیا جو 1965ء کو 32ملین ڈالر تھا اور 1968ء کو 75ملین ڈالر لیا گیا تھا ، اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری حکومت نے 1973ئ،1974ء میں 75،75 ملین ڈالر قرضہ لیا اور اس کے پونے تین سال بعد 9مارچ 1977ء کو ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری حکومت نے آئی ایم ایف سے 80ملین ڈالر کا قرضہ لے کر قوم کو گروی رکھ دیا ، جنرل ضیاء الحق کے دور میں سکون رہا۔2دسمبر 1988ء کو بے نظیر بھٹو نے حکومت سنبھالی ، حکومت سنبھالتے ہی 26دن کے اندر آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کیے اور 28دسمبر 1988ء کو آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو ساڑھے ستائس ملین ڈالر کا قرضہ جاری کیا ، بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنی تو اس نے اس وقت کے ملک کے تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیا جو 985.7 ملین ڈالر تھا ۔ نوازشریف کے پہلے دور میں تو انہونے قرضے ختم کیے ،مگر دوسرے اور تیسرے دور میں انہونے بھی آئی ایم ایف کے سامنے قوم کو گروی بنا کر پیش کیا ، 1997کو1,3بلین ڈالراور 4دسمبر 2014ء کو 4.3بلین ڈالر قرضہ لیا۔ سابق ڈیکٹریکٹر پرویز مشرف نے سن 2000ء میں 465ملین اور2001ء میں ایک بلین کا قرضہ حاصل کیا تھا ، سابق صدر آصف علی زرداری بھی کسی سے کم نہیں تھے انہوں نے بھی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیا جو 7.2بلین ڈالر تھایعنی سات ارب بیس کروڑ ڈالر۔ ان تمام لیے گئے قرضو سے (ماسیوئے ایوب خان کے دور کے جہاں ملک میں کئی ڈیم بنے )ملک میں کو کیا فائدہ ہوااور حکمرانوں کو کیا فائدہ ہوا آج سب کو پتا ہے ۔
موجودہ حکمرانوں نے اقتدار سنبھالنے سے قبل یہ واضح طور پر کہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ہماری لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا خود کشی کے مانند ہوگا ، مگر اب حکومت میں آتے ہی اپنے وعدے بھول گئے ، جیسے کہ میں نے درج بالا میں تحریر کیا کہ موجودہ حکومت ایک طرف مہنگائی کرکے قرض اتارنے کی بات کرہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف میں عوام کوگروی رکھ کر 6بلین ڈالر قرضہ لیکر قرضوں کے اقساط اداکرنے کی باتیں کر ہی ہیں۔ کیاان کو پاکستانی عوام دماغ سے فارغ نظر آتی ہے ؟
آئی ایم ایف دنیا بھر کے کئی ممالک کو قرضہ فراہم کرتی ہیں ، مگر جن شرائط پر وہ پاکستان کو قرضہ فراہم کرتی ہے وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے ۔ ہر بار آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے اپنے اور اپنے آقائوں کے مطالبات منواکر ہی سود پر قرضہ دیا ۔ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے ایک قدم آگے کو نکل گئی قرضہ حاصل کرنے میں ، موجودہ دور کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے دور میں آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط ومطالبات ابھی صحیح طورپیش بھی نہیں کیئے گئے تھے کہ ان میں بیشتر مان بھی لیئے گئے ، زرائع کے مطابق آئی ایم ایف کامزید مطالبات ماننے کے لیے دبائو بڑھتا گیا جس کو اسد عمر نے وزیراعظم عمران خان کی مرضی کے خلاف یکدم قبول کرنے سے انکار کیا تو اسے ہٹا کر غیر منتخب مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو ائی ایم ایف سے درآمد کرلیا گیا ۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے راہ میں اسٹیٹ بینک کے گورنر رطارق باجوہ بھی رکاوٹ نظر آئے تو ان کو بھی ہٹا کر ان کی جگہ آئی ایم ایف کے لیے مصر میں خدمات انجام دینے والے رضا باقر کو تین سال کے لیے اسٹیٹ بینک کا گورنر بنا دیا گیا ۔یہ حقیقت اپنے جگہ برقرار ہے کہ عمران خان صاحب کی کابینہ ایک درجن کے قریب لوگ پیپلز پارٹی اور مشرف دور کے ہے ، اب اس میں کچھ آئی ایم ایف کے بھی شامل ہوئے تو کیا کہہ سکتے ہے ۔
آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے کچھ شرائط پس پردہ بھی ہوتے ہیں، جو آئی ایم ایف کے آقائوں کی مرضی سے ہوتے ہیں، وہی شرائط اس ملک کو مزید معاشی بد حالی کی جانب گامزن کرتے ہے، اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف قرضہ دے کر حکومت کو اس کے خرچ میں اس قدر احتیاط پرمجبور کرتی ہے کہ اس سے مالیاتی امور پر جمود تاری ہوجاتا ہے اور ترقی کی رفتار سست اور سود میں اضافے سے ملک ناختم ہونے والے مالی بحران میںپھنس کر رہ جاتا ہے۔ موجودہ معاشی بحران میں آئی ایم ایف کے پاس جانا شائدعمران خان کی حکومت کے پاس واحد آپشن ہو ، مگر اس کے علاواہ اور بھی آپشن تھے جس کو اپنا کر ملک کو اس معاشی بدحالی سے نکالا جاسکتا ہے ، گر چہ وہ تھوڑا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، جیسے کہ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان صاحب اور انکے دیگر رہنما کہا کرتے تھے ۔ ” پاکستان آئی ایم ایف کے نرغے میں ”ہے اس کو نکالنے کے لیے نا چاہتے ہوئے کچھ سخت و گرم فیصلہ جات کی ضرورت ہیں، لیکن یہ حوصلہ مجھے موجودہ حکومت میں نظر نہیں آرہاہے۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی پاکستان آئی ایم ایف کے نرغے سے نکال(آمین)