تحریر : محمد نورالہدیٰ وطن عزیز پاکستان 71ویں سال میں داخل ہو چلا ہے۔ گذشتہ 70 سالوں میں اس کے استحکام کیلئے جس قدر جتن ہوئے ، ان مشکلات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ صد شکر ، کہ وطن عزیز ہر بحران میں ثابت قدم رہا اور سرخرو ہوا ۔ ہاں ، اگر اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ فقط ”ذمہ دار قیادت” کا قفدان ہے۔ اسی خامی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف عالمی سطح پر تنہا ہے بلکہ اسلامی ممالک کیلئے بھی وہ کردار ادا نہیں کرپارہا ، جس کا حالات تقاضہ کرتے ہیں ، مگر اس کے باوجود وطن عزیز نے بہرحال دنیا کو اپنا آپ تسلیم کروایا ہے ۔ کیونکہ یہ طے شدہ ہے کہ فرعون کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ، فتح یاب موسیٰ ہی ہوتا ہے … اور حق کو چاہے کتنا ہی دبایا جائے ، یہ اپنا راستہ خود بنا لیا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز نے تمام مشکلات ، کٹھن مرحلوں اور الجھنوں کے باوجود ترقی کا سفر جاری رکھا اور جو چیلنجز درپیش ہوئے ، انہیں قبول کیا ۔ نتیجتاً آج یہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے ۔ تاہم ابھی بے شمار کام باقی ہے ۔ جو کچھ اسے مل چکا ہے اس میں بہت کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
وطن عزیز کا 71واں یوم آزادی آنے کو ہے ۔ ایک بار پھر 14 اگست کو وہی عزم دہرایا جائے گا جس کا اظہار ہر طبقہ گذشتہ 70 سال سے کرتا چلا آرہا ہے :
ہم لوگ بھلا کر تیرا پیغام اخوت ، اے قائد شرمندہ کھڑے ہیں تیری تصویر کے آگے
لیکن یہ دن گزرنے کے بعد حسب سابق مذکورہ ارادوں اور وعدوں سے یوں آنکھیں میچ لی جائیں گی جیسے کبھی ان کا ذکر ہی نہ ہوا ہو … اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے سیاستدان منافرت اور تعصب کی بنیاد پر نہ صرف خود تقسیم ہیں بلکہ اس ملک ، قوم اور نظام کو بھی تقسیم کر رکھا ہے … کوئی ”نیا پاکستان” بنانے کا شوشہ چھوڑتا ہے تو کوئی سیکولر پاکستان بنانے کی بات کرتا ہے … کوئی اسلامی پاکستان کا تقاضہ کرتا ہے تو کوئی انقلابی پاکستان کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ آج سیاست تجارت بن چکی ہے ۔ جب اسمبلیوں کے لئے ٹکٹ خریدے جانے لگیں تو منتخب ہونے والے لوگ عوام کی خدمت کی بجائے اپنی سات پشتوں کو ہی سنواریں گے … قیام پاکستان کے مقاصد ذاتی مفادات پر قربان ہورہے ہیں ، سیاستدانوں کے رویوں سے لڑتے لڑتے وطن عزیز تھک سا گیا ہے ۔ ہم زیادہ دور کیوں جائیں ، پانامہ سکینڈل میں ملک و قوم سے ”محبت” اور وفاداری کا دم بھرنے والے کتنے ہی ایسے افراد بے نقاب ہوئے جنہوں نے قوم کی حالت سنوارنے کی بجائے اپنی جائیداد بڑھائی … عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا نمائندہ نوکریاں دلوانے اور لوگوں کے دیگر جائز کام کروانے کیلئے باقاعدہ معاوضہ طے کرتا اور اسے قوم کی خدمت گردانتا ہے ۔ جب یہ صورتحال ہوگی تو ان کا اخلاص وطن عزیز کے ساتھ کیونکر پیدا ہوسکے گا؟ تاجر ذہن اور بادشاہانہ سوچ کے حامل افراد کبھی بھی عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتے … ہمارے تعلیمی ادارے بھی ایک نظام ، ایک نصاب کی بجائے غربت اور دولت کی بنیاد پر تقسیم کئے گئے ہیں … نسلوں کا مستقبل مفلوج ہوچکا ہے ، جس کی وجہ سے پڑھے لکھے اور ہنرمند نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے ملک کی بجائے بیرونی دنیا میں صلاحیتوں کے جوہر دکھانے پر مجبور ہے … لیکن سیاستدانوں کو اس سب کچھ سے کوئی غرض نہیں ہے … ظاہر ہے ، لیڈر شپ کی دلچسپیاں اصل ذمہ داریوں سے ہٹ کر کچھ اور ہوں گی تو قیادت کا قفدان ہی سامنے آئے گا۔
کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ناقابل فراموش قربانیوں کے بعد حاصل کئے گئے اس ملک کی مساجد میں بندوقوں کے پہرے میں نمازیں ادا کی جائیں گی؟ … تعلیمی ادارے سنگینوں کے سائے میں ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کریں گے ؟ … ہم خوف کے ماحول میں بازاروں میں شاپنگ اور پارکوں میں تفریح کیا کریں گے؟ … ہمارے قومی تہوار وں پر بدامنی اور بے یقینی کے بادل منڈلانے لگیں گے ؟ … عوام محفوظ ہوں گے نہ اس کی حفاظت کرنے والے؟ … یوم آزادی کا اصل مزہ تو آج سے پندرہ ، بیس سال پہلے آیا کرتا تھا جب اس قدر بدامنی نہیں تھی ، لالچ ، فریب اور ذاتی مفادات کم ہی ہوا کرتے تھے … وطن عزیز کے ساتھ محبت تقاریر اور نعروں سے ہٹ کر تھی … اب تو ہم روز لاشیں ہی اٹھاتے ہیں … کبھی بم دھماکوں کا شکار پیاروں کی ، تو کبھی راہ چلتے کسی اندھی گولی کا شکار ہونے والے اپنے باپ ، بیٹے اور بھائی کی … کبھی سٹریٹ کرائم یا ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل ہونے والے کی … اور کبھی بھوک اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر بچوں سمیت خودکشی کرنے والے کسی باپ یا ماں کی … نفسا نفسی کا یہ عالم ہوچکا ہے کہ خونی رشتوں میں جائیداد کے نام پر جھگڑے ہورہے ہیں اور بے حسی کا یہ عالم کہ چند روپوں کی خاطر کسی کی جان لینا معمولی بات بن کر رہ گئی ہے … کہیں میرٹ کی دھجیاں اڑا کر حقدار کو مایوس کیا جارہا ہے تو کہیں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی تعلیم ، صحت اور خوراک کے بنیادی حق کیلئے ایڑیاں رگڑ کر مر رہا ہے ۔ محض سڑکیں اور پل بنانے کو ہی ترقی کی شاہراہ تصور کرلیا گیا ہے۔
مختصراً یہ کہ پاکستان میں اگرچہ سب کچھ موجود ہے ، لیکن اگر ہمارے ارباب اختیار و اقتدار میں دستیاب وسائل سے استفادہ کی صلاحیت ہوتی تو ملک میں غربت ، بے روزگاری ، لالچ اور جرائم کی شرح خطرناک حد کو نہ چھو رہی ہوتی ۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں وہ ذمہ دار قیادت ہی میسر نہیں ہے جو ہماری درست سمت میں راہنمائی کرسکے اور قوم کی مایوسی کو امید اور امید کو حقیقت میں بدلے … جو بکھرے ہوئے تنکوں کو جمع کرے ، ہجوم کو اکٹھا کرکے قوم بنائے اور عوام کو مسائل کے انبار سے نکالے ۔ افسوس کہ آج کے سیاستدان کو یوم آزادی تقریبات میں دھواں دار تقریریں کرنا اور ”پاکستان کا مطلب کیا …لاالہٰ الا اللہ ” کا نعرہ دہرانا تو یاد رہتا ہے ، لیکن وہ یہ بھول چکا ہے کہ پاکستان کی قیمت کیا تھی اور اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے ؟۔ اسے تو یہ بھی یاد نہیں کہ اپنی وزارت کا حلف پڑھتے وقت اس نے خود سے جو عہد کیا تھا ، اس پر عمل بھی کررہا ہے یا نہیں؟ بہرحال ، ایک اور یوم آزادی آیا چاہتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب کی مرتبہ ہر سال کئے جانے والے عہد کو دہرانے کی بجائے اپنے عمل پر نظرثانی کی جائے … اگر دل مطمئن ہو تو کیا کہنے ، ورنہ فکر کیجئے کہ آپ اس وطن کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں جس نے آپ کو عزت ، شہرت اور مقام دے کر عوام میں مقبول بنایا۔
یاد رکھئے ! قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جن کی قیادت باشعور اور غیرت مند ہوتی ہے … جو اپنے نظریے کے ساتھ چمٹی رہتی ہیں … ہاں ! مگر قومیں وہ بھی زندہ رہتی ہیں جو مقصد اور نظریے کو فراموش کردیتی ہیں ، لیکن وہ اپنے دشمن کے قدموں تلے زندہ ہوتی ہیں اور ان کی عزت اور استحکام کا مالک وہی دشمن ہی ہوتا ہے … ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور ارباب سیاست و صحافت قوم کو کہاں لے جارہے ہیں ، اس کا فیصلہ وہ خود کرلیں … یقینا خود احتسابی سے ہی قیادت کا بحران دور ہوگا … یہی 14 اگست کا آنسوئوں بھرا پیغام اور تقاضہ بھی ہے ۔ فیصلہ کر لیجئے کہ اس کو مزید رلانا ہے یا پھر اس کے آنسو پونجھنے ہیں۔
زلف کے پیچ و خم بھی بدلیں گے وقت کے ساتھ غم بھی بدلیں گے یہ تمدن ، یہ نظام ، یہ قدریں تم بھی بدلو گے ، ہم بھی بدلیں گے