تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کے عظیم ساتھی قاضی محمد عیسیٰ جو بلوچستان میں پاکستان اور قائد اعظم کے عظیم حامی اور صفِ اول کے بلوچستان رہنماﺅں میں سے تھے جوتحریکِ پاکستان کے بڑے علمبردا تھے۔یہ قاضی محمد عیسیٰ ہی تھے جو جون 1939 بلوچستان میںپاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ بلوچستان کاقیام عمل میں لائے۔جب قائدِ اعظم نے 1945میں اعلان کیا کہ”تم مجھے چاندی کی گولیاں دو میں آزادی کی جنگ لڑکر تمہیں پاکستان دونگا “تو قاضی محمد عیسیٰ نے دل کھول مسلم لیگ کے فنڈز میں سرمایہ فراہم کیاتھا ۔قاضی محمد عیسیٰ بلوچستان کے واحد فرد تھے جو مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے واحد رکن تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایسے ہی عظیم باپ کے فرزند ہیں۔ جوموجودہ ایوانوں میں بیٹھے ہیں اوراسٹابلشمنٹ کے بونوںمیںسے کوئی بھی اس اس رتبے کے باپ کی اولاد نہیں ہے۔جو سب کے سب کمیوں کی اولادیںلگتی ہیں۔جو اس وقت ملک کے مالک بھی بنے بیٹھے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا قصور یہ بنا کہ انہوں نے اُن غیرت مند ججز کا ساتھ دیا جنہوں نے پرویز مشرف کے ایمرجنسی میں حلف لینے سے انکار کر دیاتھا۔جس کی وجہ سے سلیکٹر ان سے پہلے ہی ناراض تھے۔سونے پہ سہاگہ فیض آباد دھرنا جو تحریکِ لبیک پاکستان نے 2017میں فیض آباد کے مقام پرنواز شریف حکومت کو پریشان کرنے کے لئے دیا تھا۔ کا فیصلہ سناتے ہوئے فروری 2019میںجسٹس فائز عیسیٰ نے جس طرح ایک انٹیلی جینس ادرے کو مظاہرین میں کھلے عام رقمیں تقسیم کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔وہ اسٹابلشمنٹ کے سینے کا گھاﺅ بن گیا۔جس کے نتیجے میںاس عظیم جسٹس کو اسٹابلشمنٹ نے حکمرانوں کے ساتھ مل کر نشانے پر لے لیا۔میں اس پر عزم منصف کو ہمارا لوگوں کے دانتصاف کرنے والا صدر اور ویسٹ کا ایجنٹ اس ملک کاوزیر اعظم اپنے مہربانوں کو خوش کرنے میں مصروف ہوگئے اور قابل احترام جسٹس کو اپنے منصوبوں اور راستے کی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے اپنے راستے سے ہٹانے کی بھر پور جدوجہد شروع کردی ہے۔
صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک میلافائڈ ریفرنس جس کی قانونی حیثیت پر ہر جانب سے سوالات ٹھائے جاتے رہے ہیں ۔سپریم کورٹ میں داخل کر دیا تھا۔جس کا مقصد قاضی فائز عیسیٰ جیسے عظیم باپ کے عظیم فرزند کے منہ پر کالک ملنا تھی۔اس کیس کی 41وین سماعت پر سپُریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف داخل کیا جانے ولاریفرنس خارج کر دیا۔اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی اورشو کاز نوٹس کو بھی غیر موثر قرار دیدیا ہے۔اس فیصلے کے بعد حکومت اور اس کے سلیکٹرز کسی کو منہ دکھانے کے قابل تو نہیں ہیں۔ مگر میرے وطن میں اس وقت ڈھٹائی کا راج ہے۔دوسری جانب قاضی فائز عیسیٰ عدالتِ عظمیٰ سے سرخ ہو کر سامنے آئے ہیں۔جس سے پاکستان کے انصاف پسند لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اب قاضی فائز عیسیٰ کی شخصیت کے بعض پہلو دیکھتے ہیں ۔قاضی فائز عیسیٰ صاحب پاکستان میں ہی اے اور اول لیول کے امتحانات واضح حیثیت میں پاس کر لینے کے بعد لندن سے بار پروفیشنل کا امتحان پاس کرلینے کے بعد وہ پاکستان میں 27سالنہایت کامیاب وکالت کرتے رہے۔ وہ اپنے پیشے میں انتہائی کامیاب وکیل ثابت ہوئے تھے۔جس کے بعد 5،اگست 2009کو وہ برائے راست بلوچستان ہائی کورٹ کے جج مقرر کر دیئے گئے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے 5ستمبر 2014سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔مگر ہمارے اداروں کا ان کا سپُریم کورٹ میں رہنا کھل رہا ہے۔
سپُریم کورٹ کا 2017کے دہرنے، پر لیا جانے والا 21نومبر 2017کے ازخود نوٹس کیس کو روان سال نمٹاتے ہوئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ،انٹیلی جینس اداروںاور فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دئرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں ۔ان میں سے کوئی ادارہ اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر کام نہ کرے۔سپُریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اوروزارتِ دفاع کے توسط سے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت جاری کی ہے کہ اپنے اداروں میں موجود ان اہلکاروں کے خلاف کاروائی کریں جو اپنے حلف کی خلاف وزی میں ملوث پائے گئے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ جسٹس فائز عیسیٰ ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
سپُریم کورٹ کی جانب سے واضح حکم دیایا گیا تھا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو دوسال کے لئے کام کرنے سے روک دیا گیاہے ۔ تو3نومبر 2007کے فیصلے کے تحت بلوچستان کے تمام ججز مستعفی ہوگئے اور قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مقرر کر دیا گیاتھا۔مارچ 2018میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ لگائے جانے کے خلاف ایک پٹیشن داخل کی گئی۔جس کو سپُریم کورٹ نے واضح اعتراضات کے تحت خارج کردیا تھا۔موجودہ صدر کی پٹیشن کے مسترد کئے جانے پر عظیم باپ کا عظیم بیٹاسُرخ رو ہوا۔ایک سچے منصف کے منہ پر کالک مسلنے والے آج اپنے منہ چھپاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbirahmedkarachi@gmail.co