تحریر: محمد اشفاق راجا امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے رابطہ کرکے پاکستان کیساتھ کشیدگی بڑھانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں خبردار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ دوسری جانب امریکی مشیر قومی سلامتی سوزن رائس نے کہا پاکستان کیخلاف بھارت کی مہم سے خطے میں امن وامان کا توازن بگڑرہا ہے لہٰذا بھارت خطے میں کشیدگی نہ بڑھائے۔
مشیر قومی سلامتی سوزن رائس نے بھارتی ہم منصب اجیت دودل کو فون کرکے اوڑی حملے پر تبادلہ خیال سمیت حملے کی مذمت کی۔ اس موقع پر سوزن رائس کا کہنا تھا کہ پاکستان کیخلاف بھارت کی مہم جوئی سے خطے میں امن بگڑ رہا ہے۔ وائٹ ہاوس نے کشمیر کے معاملے پر کشیدگی مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دریں اثنا ء ترجمان چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے باخبر ہے۔ چین کو کشمیر میں جاری صورتحال پر تشویش ہے۔ کشمیر تاریخی مسئلہ ہے جو بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھارت بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کریں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے بھی پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدگی کی انتہاء تک لے گیا ہے’ لائن آف کنٹرول پر جنگ کی سی صورتحال ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجیں کیل کانٹے سے لیس ”فائر” کے آرڈر کی منتظر ہیں۔ حالات تو اس نہج پر مودی کا مقبوضہ کشمیر میں قبضہ مزید مضبوط بنانے کا خبط لایا ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان اور مسلمان مخالفت کی بناء پرالیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں بھی دیتے تھے۔ اقتدار میں آکر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کا سلسلہ تیز ہو گیا۔ لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی آئے روز کا معمول بن گئی۔ ورکنگ باونڈری بھی بھارتی فورسز کی زد میں آنے لگی۔ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی’ مذاکرات پر آمادگی بھی ظاہر کی تومسئلہ کشمیر کو ایجنڈے سے خارج قرار دیا’ کہا گیا صرف دہشت گردی پر مذاکرات ہونگے۔
Protest in Kashmir
بھارت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی اور اس کیلئے جدوجہد کرنیوالوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ پاکستان بھارتی فورسز کو دہشت گرد اور اپنی آزادی کیلئے لڑنے والوں کو حریت پسند قرار دیتا ہے۔ بھارت اپنے دوست ممالک کو بھی یہی باور کراتا ہے۔ پاکستان کا نکتہ نظر بھی دنیا کے سامنے ہے۔ دہشت گردی کی تعریف میں اگر پاکستان اور بھارت متفق نہیں تو دہشت گردی کیخلاف مل کر کیسے لڑ سکتے ہیں۔ بھارت کی خواہش پر محض دہشت گردی پر مذاکرات ہوں تو یہ قیامت تک نتیجہ خیز نہیں ہوسکتے۔
مودی حکومت کے مظالم میں اضافے پر کشمیری حریت پسند اسکے سامنے نئے عزم اور ولولے کے ساتھ سینہ سپر ہوگئے۔ انکی تحریک کو نئی مہمیز برہان مظفروانی اور اسکے نوجوان ساتھیوں کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد سے شہادت کے بعد ملی۔ تین ماہ سے کشمیری بھارتی سفاک سپاہ اور اسکے مظالم کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ ایک طرف مسلسل کرفیو دوسری طرف ہڑتال اور مظاہرے جاری ہیں۔ کشمیریوں کا اپنے حقوق کیلئے احتجاج اب مقبوضہ وادی سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ پاکستان میں خصوصی طور پر ہر سطح پر کشمیریوں کی بھرپور حمایت جاری ہے۔ حکومت نے سفارت کاری کو فعال بنایا۔ وزیراعظم نوازشریف نے یواین او میں بھارتی بربریت سے دنیا کو آگاہ کیا۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے او آئی سی اور دیگر ممالک کے وفود کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی بارے تفصیلی بریفنگ دی۔ وزیراعظم نوازشریف نے نیویارک روانگی سے قبل ہی مسئلہ کشمیر پوری قوت سے یواین اجلاس میں اٹھانے کا اعلان کردیا تھا۔ اس پر بھارت میں پریشانی پائی جانے لگی۔
18 اگست کو اوڑی چھاونی کا واقعہ پیش آیا جس میں چار حملہ آوروں نے سکیورٹی کے ناقابل تسخیر حصار میں نقب لگا کر 18 فوجیوں کو جہنم واصل کردیا۔ بھارت نے ممبئی اور پٹھانکوٹ حملوں کی طرح فوری طور پر اس کا الزام پاکستان پر لگایا جس طرح بلاتحقیق پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا اسی طرح کوئی ثبوت نہ پاکستان کو فراہم کئے گئے نہ عالمی برادمی کے سامنے رکھے گئے۔ تاہم بھارتی حکمرانوں کے پاکستان پر گرجنے اور برسنے کا سلسلہ تیز ہوتا گیا تاآنکہ جمعرات کی صبح ایل او سی کے پانچ مقامات پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیا گیاجس میں دو پاکستانی سپوت شہید اور 9 زخمی ہوگئے۔ جوابی کارروائی میں 14 بھارتی فوجی جہنم واصل کردیئے گئے اور ایک گرفتار ہو گیا۔ بھارت اس فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دے رہا ہے جبکہ بھارتی فورسز کی یہ گولہ باری سرجیکل سٹرائیک کی تعریف پر پورا نہیں اترتی’ اسے نہ صرف پاکستان بلکہ بی بی سی سمیت عالمی میڈیا اور بااثر ممالک نے بھی ماننے سے انکار کیا ہے۔ مودی نے اپوزیشن کا اجلاس بلایا جسے مطمئن نہ کیا جا سکا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انکے سامنے حکومت نے شواہد نہیں رکھے۔ یہ کیسی سرجیکل سٹرائیک ہے جس میں 14 بھارتی فوجی ہلاک اور ایک ”سورما” گرفتار ہو گیا۔
Deceitful Behavior
پاکستان کے حوالے سے بھارت کے مکارانہ رویے سے دنیا نابلد نہیں ہے۔ بہت سے ممالک بھارت کے ساتھ تعلقات اور دوستی کے باعث کسی شدید ردعمل سے گریز کرتے ہیں مگر جب صورتحال یہ ہو جائے کہ مودی اور انکے حواریوں کے اقدامات اور بیانات پر بھارت کے اندر سے عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے تو بھارت کے بہی خواہ ممالک بھی حقیقت سے نظریں کب تک چرائیں گے۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کی بے جا حمایت کی جاتی رہی ہے مگر آج جان کیری اور سوزن رائس کی طرف سے انف از انف کے رویے کا اظہار ہورہا ہے۔ جان کیری اور سوزن کی اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ ترش گفتگو بھارتی میڈیا کے توسط سے دنیا کے سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے بھارتی میڈیا بھی متعصب ہے مگر اپنی حکومت کی انتہاء کو پہنچی ہوئی منافقت پر وہ بھی حقیقت بیان کرنے پر مجبور ہو گیا۔
آج پوری دنیا بھارت کے موقف کو مسترد کررہی ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کو پتہ ہے کہ پاکستان بھارت کشیدگی کس طرح دور ہو گی اور خطے میں پائیدار امن کا قیام کس طرح ممکن ہے۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کی قراردادیں پڑی ہیں’ امریکہ قائل ہوچکا ہے کہ خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار اور امن کا دشمن کون ہے۔ چین مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دے رہا ہے۔ ایران’ ترکی’ سعودی عرب سمیت او آئی سی مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی حمایت کرچکے ہیں۔ یورپ اور مغرب عموماً امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ روس بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل میں پیشرفت کے امکانات روشن ہیں۔