سنگینوں کے سائے

Indian Army-Atrocities Kashmiri People

Indian Army-Atrocities Kashmiri People

تحریر : طارق حسین بٹ شان

پاکستان اور بھارت دو ایسے ہمسائے ہیں جو پہلے دن سے ہی ایک دوسرے سے مخاصمت کی تاریخ رکھتے ہیں۔انھیں عدمِ اعتماد اور باہمی جنگ و جدل ورثہ میں ملا ہے جسے وقت نے مزید بڑھاوا دے دیا ۔تاریخ ِ انسانی کی سب سے بڑی خونی ہجرت سے شروع ہونے والا سفر کبھی بھی امن کے خواب میں ڈھل نہیں سکا ۔اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کی تخلیق کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ اگر بھارت زمینی حقائق کو تسلیم کر تے ہوئے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا تو برِ صغیر کی تاریخ بالکل مختلف ہو تی لیکن بھارت نے ایسا کرنے کی بجائے اپنی ساری سرگرمیوں کا محور پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کرنے پر صرف کر دیا۔اس کا مقصد پاکستان کو زک پہنچانا اورالجھانا تھا۔اس کا آغاز جونا گھڑھ اور حیدآباد پر ناجائز قبضہ سے ہوا جسے بعد میں کشمیر پر بھارتی جارحیت نے مزید ہوا دی۔

کشمیر پر فوج کشی کا فیصلہ اور کشمیری عوام کو بزورِ قوت غلامی کی زنجیروں میں جکڑ نا ایک ایسا اقدام تھا جس نے برِ صغیر کا امن و سکون غارت کر کے رکھ دیا۔کشمیری عوام بھارت کی بجائے پاکستان سے الحاق چاہتے تھے جبکہ بھارت انھیں بزور اپنا غلام بنانے پر تلا ہوا تھا۔کشمیریوں کی آزادی ، امن کی خواہش اور حریتِ فکر کی امنگ نے بھارتی اوسان خطا کر دئے اور اس نے اپنی عسکری طاقت سے نہتوں کے خون کی ارزانی کاراستہ اپنایا۔امن اور طاقت کے درمیان یدھ نے برِ صغیر کوایسا آتشکدہ بنا دیا جس سے امن کی بجائے آگ کے انگارے پیدا ہوئے اور امن ایک خواب بن کر رہ گیا۔بارود کے اس ڈھیر سے امن کی خوشبو کی بجائے آگ کے شراروں نے برصغیر کی تاریخ کو لہو لہان کر دیا ۔بھارت اپنی انا اور طاقت کے نشے میں کشمیریوں کو اپناغلام بنائے رکھنا چاہتا ہے لیکن آزادی کے متوالے بھارتی طاقت کے قائم شدہ حالہ کوتوڑ دینا چاہتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ جب تک کشمیر امن کی آماجگاہ نہیں بنتا پورے خطے پر جنگ کے بادل چھائے رہیں گے۔کشمیریوں پر بھارت نے جس طرح عرصہِ حیات تنگ کیا ہوا ہے اس کا فطری نتیجہ بھارت کے خلاف معاندانہ کاروائیاں ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے کشمیریوں نے جس طرح بھارتی تسلط کے خلاف اپنے سینوں کو کشادہ کر لیا ہے بھارت خوف کا شکار ہے۔وہ سنگینیوں ،شمشیروں ، توپوں ،ٹینکوں اور گولیوں کی سنسناہٹ سے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو کچلنا چاہتا ہے لیکن کشمیریوں کی بسالتوں نے ایسی ہر کوشش کو ناکام نا دیا ہے لہذا وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت علاقے کی بڑی عسکری قوت ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پورا علاقہ اس کے زیرِ نگین ہو۔وہ پاکستان کو بھی اپنے سامنے دو زانو کرنا چاہتا ہے۔اسے ایسا ہمسایہ چائیے جو اس کے سامنے سر نہ اٹھائے۔وہ پاکستان سے بھوٹان،سکم،سری لنکا اور مالدیپ جیسا طرزِ عمل چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔وہ قوم جس نے صدیوں برِ صغیر پر حکومت کی ہو اس سے غلامانہ طرزِ عمل کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

پاکستان مسلم امہ کی شان ہے ،اسلام کا قلعہ ہے اور مسلمانوں کی آن بان ہے لہذا اس کے لئے بھارت کی فوجی برتری کوئی معنی نہیں رکھتی۔امریکہ جیسی سپر پاور بھی جس کی ہیبت سے لرزاں رہتی ہے اور اس کی حمائت کے لئے کشکول اٹھائے پھرتی ہے لہذا وہ بھارت سے خائف کیوں ہو گا؟افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کیلئے امریکہ آج کل سوالی بنا ہوا ہے کیونکہ اسے خبر ہے کہ پاک فوج کی معاونت کے بغیر اس کا افغانستان سے انخلاء ممکن نہیں ہے۔وہ سفارتی محاذ پر پاکستان کو رام کرنے میں مشغول ہے لیکن اسے ابھی تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ افغانستان کی الجھی ہوئی صورتِ حال کسی منطقی نتیجہ تک پہنچ نہیں رہی۔وہ سوویت یونین جیسے انجام سے بچنا چاہتا ہے لیکن لگتا ہے وہ بچ نہیں پائے گا۔اس کا انجام بھی سوویت یونین سے مختلف نہیں ہو گا ۔امریکہ افغانیوں کی سرفروشی اور جانبازی کا عینی شاہدہے اور اپنی سالہا سال کی ناکام جنگی حکمتِ عملی کے بعد اسے یقین ہو چکا ہے کہ افغانیوں کو شکست دینا اس کے بس میں نہیں ہے۔ایک طرف شکست کا خوف ہے تو دوسری طرف اپنی فوج کے انخلاء کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔وہ راہِ فرار چاہتا ہے لیکن پاک فوج کی سرپرستی کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے۔،۔

علامہ اقبال ایک ایسے مفکر تھے جو ماضی کی تاریخ سے باخبر تھے اور آنے والے کل پر بھی ان کی نظر تھی۔انھیں خبر تھی کہ بھارت جیسا مکار دشمن آنے والے زمانوں میں کتنی پستی تک اتر جائے گا ۔انھوں نے دو قومی نظریہ بھارت کی اسی پستی کو پیشِ نظر رکھ کر پیش کیا گیا تھا۔کچھ لبرل حلقے دو قومی نظریے سے اختلاف کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کی تاریخ پر گہری نظر ہے وہ اس رائے کے حامی ہیں کہ دو قومی نظریہ ہی برِ صغیر کے امن کی ضمانت تھا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم نیشلسٹ قائد کو بھی اپنی زندگی بھر کی جدو جہد کے بعد دو قومی نظریہ کو اپنانا پڑا تھا کیونکہ یہی برِ صغیر کے امن اور بقا کی علامت تھا۔برِ صغیر کی تقسیم خطے کی بہتری ،خوشحالی ،ترقی ،امن اور استحکام کا دوسرا نام تھا ۔اگر دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو برِ صغیر ہمیشہ خا ک وخون میں غلطان رہتا ۔دو قومی نظریہ خون کی ندیوں کو روکنے کا واحد ذریعہ تھا لیکن افسوس بھارت اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہا ۔وہ بندوق کی نالی سے امن کا متلاشی ہے جو ناممکن ہے ۔ بندوق امن کی نہیں بلکہ انتشار اور دھشت کی علامت ہے اور اس کے استعمال سے امن نہیں بلکہ جنگ کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

کشمیریوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرنا بندوق کی نالی سے امن کا خوب دیکھنے کی ناکام کوشش ہے۔کشمیر ی تحریک اب ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جس کا منطقی نتیجہ کامیابی ہے ۔آج کشمیری نوجوان تحریک کا ہراول دستہ بنے ہوئے ہیں اور انھیں اسلحہ کے زور پر تحریک سے دور رکھنا ممکن نہیں رہا۔مظفر برہان وانی کی شہادت نے جس جذبہ کو جنم دیا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔بھارت پلوامہ واقعہ پر غم و غصہ کی تصویر بنا ہوا ہے اور پاکستان کو مزہ چکھانے کیلئے بے تاب ہے۔وہ اپنے آپے سے باہر ہو رہاہے۔وہ کبھی ٹماٹر بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور کبھی پانی بند کرنے کاڈرامہ رچاتا ہے لیکن اس کے یہ سارے حربے ناکامی پر منتج ہو ں گے کیونکہ پاکستانی قوم بھارتی جارحیت کے خلاف یک جان ہے۔بھارت کے خلاف سارے سیاسی قائدین ایک صفحہ پر ہیں۔

سیاسی محاذ پر ان میں بے شمار اختلافات ہیں لیکن بھارت کے خلاف وہ سب یک زبان ہیں۔بھارت جب بھی جارحیت کیلئے قدم بڑھائے گا تو اسے وطن کے سرفروشوں اور اسلام کے شیدائیوں کے ایک ایسے لشکر کا سامناکرنا پڑے گا جو اس کے اوسان خطا کر دے گا ۔ اپنے ہونٹوں پر لا الہ کا ورد سجانے والے جب ربِ ذولجلال کی رضا کی خاطر میدان میں سر بکف نکلتے ہیں تو دنیاوی خدائوں کا خوف اپنا وجود کھو دیتا ہے ۔ان کے ہونٹوں پر شہادت کی دعا ان کے جذبوں کو نیا آہنگ عطا کر تی ہے اور وہ دیوانہ وار میدانِ کارزار میں نکل پڑتے ہیں ۔ان مخصوص لمحوں میں رب کی رضا ، اس کی منشاء اور اس کی عنائیت ہر خوف پر غالب آ جاتی ہے لہذاوہ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کے آفاقی جذبوں کے سامنے دشمن پسپائی کی راہ اختیار کر لیتا ہے کیونکہ سر فروشوں کے سامنے ٹھہرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جذبوں کے حامل اور موت کے متمنی ہی آخرِ کار فاتح قرار پاتے ہیں۔علامہ اقبال نے اس حقیقت کو ایسے دکش انداز میں پیش کیا ہے کہ روح وجد میں آ جاتی ہے آپ بھی پڑھیے اور وجد میں آ جائیے۔،۔

شہادت ہے مقصود و مطلوب و مومن ۔،۔ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحراو دریا ۔،۔ سمٹ کر پہاڑ ان کی پیبت سے رائی

Tariq Hussain Butt Shan

Tariq Hussain Butt Shan

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال