تحریر: شیخ خالد ذاہد یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا اچھے سے اچھا جواب کم و پیش ہر پاکستانی بہت دلائل کہ ساتھ دے سکتا ہے۔ ہر پاکستانی اپنی اپنی ذہنی صحت اور اسطاعت کہ تحت اس سوال کا جواب دینا شروع کر دے گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہر پاکستانی چاہے اسکا تعلق پاکستان کہ کسی بھی شہر سے ہو اور کوئی سی زبان بولنے والا ہو یا کسی بھی فرقے یا مسلک کا ماننے والا ہو، وہ پاکستان کا خیر خواہ ہی ہوگا اور پاکستان کی خیر خواہی کے لیے بہترین سے بہترین تجویز پیش کردے گا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب سب پاکستان کی ترقی اور بھلائی چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کیوں تنزلی کا شکارہوا جاتا ہے؟ کیوں پاکستان میں انارکی پھیلی ہوئی ہے ؟کیوں پاکستان فرقہ واریت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے؟ کیوں پاکستان میں غیرملکی خفیہ ایجانسیوں کا جال بچھا ہوا ہے؟ کیوں نقصان ہی نقصان ، خسارہ ہی خسارہ بتایا جاتا ہے؟۔
ہم سب زبانی کلامی طور پر تو پاکستان کہ خیرخواہ ہیں مگر عملی طور پر ہمارے مقاصد بلکل مختلف دیکھائی دیتے ہیں۔ و ہ عملی مقاصد کیا ہیں ؟ ایک مخصوص طبقہ ایک مخصوص سیاسی یا مذہبی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے اور جب بات سیاسی یا مذہبی بنیاد پر ہوتی ہے تو ہم پاکستانی ، پاکستانی نہیں رہتے بلکہ اس سیاسی یا مذہبی جماعت کی تائید میں اندھی تقلید کہ حامی دیکھائی دیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک طرف تو ہم پاکستان کی خیہر خواہی کا دم بھر رہے تھے اور دوسری طرف مقاصد تبدیل ۔ ایک سیاسی جماعت جو مخصوص مقاصد کہ حصول کیلئے سیاست کا حصہ ہے ہم پاکستان کو بالائے طاق رکھ کر اس سیاسی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی تفریق ہے جسے ختم کرنا کسی معجزے کی مرہونِ منت ہی ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی وجوہات کی تفریق میں پسی ہوئے پاکستانی قوم ہیں۔پاکستان کی خیر خواہی کی مثبت سوچ کہ حامل لوگ جاہل یا انپڑھ نہیں ہیں ان میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہی ہے۔
میرے پاکستان میں ہر پاکستانی دوسرے شہری کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہو اورہر پاکستانی بھرپور بھائی چارے کی اعلی سے اعلی مثال قائم کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہو۔ ایک دوسرے کیلئے راستہ چھوڑنے کہ جذبے سے سرشار ہو۔ بے لوث خد مت ہر پاکستانی کا شعار ہو۔پاکستانی ہونے پر فخر ہو۔
Rules
میرے پاکستان میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کو دیکھ کر پتہ چلے کہ یہ مہذب معاشرے کہ شہری کی گاڑی ہے جو سڑک پر چلنے کہ اصولوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے اور ان پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد کرتا ہے۔ سب اپنی اپنی لائن میں چلیں اور بے قاعدگیوں کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیں۔ پیدل چلنے والے اپنے قوائد و ضوابط سے واقف ہوں۔ایسے اصول اور ضابطہ اخلاق کہ پابند ہوجائیں کہ سڑکوں پر حادثات اور ٹریفک کی صورتحال خراب نا ہونے کہ برابر ہو۔ میرے پاکستان میں تعلیم کی اہمیت کو بھر پور طریقے سے ہر سطح پر اجاگر کرنا ہے ۔ تعلیم اور اس وابسطہ تمام تر سہولیات بلکل مفت مہیہ کرنے کہ ساتھ ساتھ ایسے تشہری پروگرام کرنے چاہئیں جو بچوں کو تعلیم سے محبت اور اسکی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے شوق اور ذوق سے تعلیمی اداروں کا رخ کریں۔ تعلیم کی ابتداء سے پہلے ،بچوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ بچوں کو یکساں ماحول میں آنے والی زندگی کہ معاملات جیسے معاشرتی اقدار اور مذہبی عقائد کی بھر پور ذہنی نشو نما کی جانی چاہیئے۔ میرے پاکستان میں تعلیم سے بڑھ کر کسی چیز کی اہمیت و فوقیت نہیں ہونی چاہئے ۔ تعلیم کا ایسا نظام رائج ہو جس میں کوئی تفریق نا ہو، کسی بچے کو احساسِ محرومی نا ہو۔یونین کونسل کی سطح پر لائبریریاں بنائی جائیں۔
میرے پاکستان میں انسانیت کا ایسا قانون نافذ ہو جو کسی کی برتری اور کمتری کہ زیرِ اثر نہ ہو۔ جہاں انصاف کی ایسی مثالیں قائم ہوں کہ دنیا میں پاکستان ایک مثالی ریاست بن جائے۔ میرے پاکستان میں سفارشی اور جعلسازوں کوایسی سخت سے سخت سزائیں دی جائیں جو آنے والوں کیلئے عبرت کا نشان بن کر رہیں۔ میرے پاکستان میں مجرموں کو قانون کیمطابق سزائیں سرِ عام دی جائیں۔ میرے پاکستان میں کوئی لاوارث نا ہو۔
میرے پاکستان میں ریاست اپنے ہر شہری اور دیہاتی کی جان ومال کا حقیقی معنوں میں تحفظ فراہم کرے۔ میرے پاکستان میں بھیکاری ڈھونڈنے سے نا ملتے ہوں۔ ریاست ایسے ادارے قائم کرے جہاں ہر طرف کہ فرد کیلئے کوئی نہ کوئی کام موجود ہو اور اسے بھیک مانگنے کی نوبت نا آئے۔ میرا پاکستان ایسا ہو کہ وہاں مسجدوں پر مسلک کہ بجائے اللہ کا گھر لکھا ہو۔
میرا پاکستان ایسا ہو کہ حوا کی بیٹی پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے اور دنیا کہ سامنے اپنے وطن کی وہ مثال پیش کرے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی بیٹیاں پاکستانی معاشرے کو مثالی قرار دیں۔ میرے پاکستان میں بزرگوں کو انکی مرضی کہ مطابق سہولیات فراہم کی جائیں۔ میرے پاکستان میں صحت و صفائی کی ہر فرد ذمہ داری لے۔ میرے پاکستان میں ہر ادارہ پاکستان کی خدمت کہ جذبے سے سرشار ہوکر اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کی سربلندی کیلئے۔
Sacrifices
ہمارے آباؤاجداد کی قربانیوں کا مقصدبھی تو یہی تھا کہ پاکستان ایسا ہو کہ وہاں سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں، اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان ایک گھر کی مانند ہو جہاں مختلف کمرے ہوتے ہیں شور شرابا ہوتا ہے مگر سب کچھ گھر کہ اندر ہی ہوتا ہے اور باہر والوں کو کسی قسم کی کوئی بھنک تک نہیں پڑنے دی جاتی۔
میں ایسا کچھ نہیں چاہتا کہ میرے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں ہوں ، شیر اور بکری ایک جگہ پانی پیتے ہوں اور ہمارے حکمران ہمارے درمیان سبزی والے سے بھاؤ تاؤ کرتے ہوں۔ میں ایسا بھی نہیں چاہ سکتا کہ ہمارے حکمرانوں کیلئے نعرے نا لگائے جائیں یا انکے لئے ٹریفک معطل نا کیا جائے۔پاکستان ایک آہنی زنجیر کا نام ہے اور ہم پاکستانی اس کی کڑیاں ہیں ۔ آئیں اس زنجیر کو ایسا مضبوط بنائیں کہ کوئی اسے توڑنے کا سوچ بھی نا سکے۔ ایسا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہر پاکستانی اپنے گھر کی طرح اپنی اپنی ذمہ داری خود اٹھالے اور احسن طریقے سے انہیں نبھائے جائے۔
میں جس ملک میں رہتا ہوں بس یہی ہے میرا پاکستان ۔ میرے پاکستان کے نوجوانوں کو صحیح سمت کا تعین خود کرنا ہے ہمیں خود کو تعصب کی زنجیروں سے آذاد کروانا ہے۔ہر برائی کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرنا ہے۔ ہم سب پاکستانی صرف اور صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر کاربند ہوجائیں کہ پاکستان ہمارا گھر ہے ۔ گھر میں کوئی تعصب نہیں ہوتا، گھر کو صاف ستھرا رکھا جاتا ہے، گھر کہ بڑوں کے بنائے اصولوں اور ضابطوں کو بھرپور طریقوں پر بھرپورعمل کیا جاتاہے اور گھر تک کسی دشمن کو رسائی نہیں دی جاتی یہاں تک کہ گھر کی بات گھر میں بہت تحمل سے حل کر لی جاتی ہے یہاں تک کہ پڑوسی کو بھی نہیں پتہ چلنے دیا جاتا۔ اسے وضع داری کہتے ہیں۔ ہم ہر گھر کا نام پاکستان رکھدیتے ہیں۔
ایسی بہت معصوم سی خواہشیں ہر پاکستانی اپنے دل میں گزشتہ ۷۰ سالوں سے لئے جی رہا ہے اور نا جانے کتنے ان خواہشوں کو دل میں چھپائے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ میرے پاکستان کی تکمیل اسی وقت ہی ممکن ہوسکتا جب ہم پاکستانی بن کر سوچنا شروع کردیں اور اپنے حکمرانوں کو بھی ایسا سوچنے پر مجبور کردیں۔ اس مضمون کا انجام اس دعا کہ ساتھ کرنا چاہونگا کہ اللہ ہمارے پاکستان کو تاقیامت سلامت رکھے (آمین یا رب العالمین)
دعائے خالد اے رب ذولجلال میرے وطن کو سلامت رکھنا لاکھ ہو مشکلوں سے دوچار قائم تا قیامت رکھنا