تحریر: سید انور محمود پاکستان کے طاہر علی اور بھارت کی ڈاکٹر عظمیٰ ایک دوسرئے سے ملائشیا میں ملے اور پھر بھارتی فلم ’پی کے‘ کی طرح ایک دوسرئے سے محبت کربیٹھے لیکن یہ فلم نہیں اصل اور حقیقی زندگی تھی، ملائشیا میں دونوں نے ایک دوسرئے سے خوب جھوٹ بولے، پاکستانی طاہرعلی پہلے سے شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہے اورملائشیا میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا۔ طاہر علی نے اپنی شادی اور چار بچوں کی بابت ڈاکٹر عظمیٰ کو نہیں بتایا لیکن ان کی بھارتی محبوبہ یہ جانتی تھی کہ طاہر ملائشیا میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ ہوسکتا ہے دونوں کی محبت کا آغاز ٹیکسی کے زریعے ہی ہوا ہو۔ طاہر علی کی محبوبہ دہلی سے تعلق رکھنے والی بھارتی شہری ڈاکٹرعظمیٰ دہلی کے یمنا وہار علاقے میں ایک بوتیک چلاتی تھی۔ ڈاکٹرعظمیٰ کے والد کا نام محمد نوشاد ہے، طاہر علی کی دو دن کی بیوی ’ڈاکٹر‘ نہیں ہے اس کے ویزا فارم میں اس کا نام ’’عظمیٰ نوشاد‘‘ درج ہے۔ بی بی سی کے ایک نمائندے کے مطابق اگر عظمیٰ واقعی ایک ڈاکٹر ہے ہیں تو دہلی میں اس کے جاننے والوں کو اس کی خبر کیوں نہیں، لیکن اس کے جاننے والوں کا یہ دعویٰ بلکل سچ ہے عظمیٰ پہلے بھی ایک مرتبہ شادی کر چکی ہے اور اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔ عظمیٰ یکم مئی کو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچی اور 3 مئی کو اس نے طاہر علی سے نکاح کرلیا۔
شادی کے بعدعظمیٰ نے اپنے گھر دہلی رابطہ کیا تو بھائی نے ہنی مون کے لئے بھارت آنے کی دعوت دی اورکہا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں ملازم عدنان سے ملے ۔ دونوں ویزہ لینے ہائی کمیشن پہنچے تو عظمیٰ اندر گئی پھر واپس نہیں آئی ۔عظمیٰ نے بھارت کے ہائی کمیشن میں پناہ لی تو بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کرکے بتایا کہ عظمیٰ کا الزام ہے اسے شادی کے بعد معلوم ہوا کہ طاہر شادی شدہ ہیں اور اور چار بچوں کے باپ ہے۔ اس نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ بھی درج کرایا ہے۔ 25 مئی تک یہ ڈرامہ چلتا رہا، بھارتی شہری عظمیٰ اب بھارت پہنچ چکی ہے۔ دہلی میں عظمیٰ نے اپنی والدہ کے ساتھ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کی اور پھر ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف زہر اگلا۔ بقول اس کے ’ہمارا انڈیا جیسا بھی ہے، اچھا ہے، پاکستان تو موت کا کنواں ہے‘۔ عظمیٰ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں خاص طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان بہت اچھا ہے لیکن میں وہاں جو دیکھ کر آئی ہوں، ہر گھر میں دو دو تین تین بیویاں ہیں، عورتوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ بونیر میں جس جگہ وہ تھی وہاں اس جیسی اور بہت سی لڑکیاں تھیں، وہ سب انڈین شہری نہیں تھیں، ان میں کچھ فلپائن اور ملائشیا سے بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر وہاں مجھ جیسی اور بہت لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا تھا، اگر میں کچھ اور دن وہاں رہ جاتی تو وہ یا تو مجھے مار دیتے یا مجھے آگے بیچ دیتے یا پھر کسی آپریشن میں میرا استعمال کرتے۔
کوئی بھی باشعور انسان چاہے وہ پاکستانی ہو یا بھارتی یا کسی اور ملک کا شہری صرف دو مرتبہ عظمیٰ کے اس بیان کو پڑھ لے وہ اس عورت کو جھوٹا اور اس سارئے واقعے کو بھارتی حکومت کا ڈرامہ قرار دئے گا۔ زرا غور کریں یکم مئی کو پاکستان میں داخلہ پھربونیر کا سفر اور وہاں شادی، دو دن بعد اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں پناہ، وہاں سے نکل کر سپریم کورٹ اور پھر بھارت واپسی تو اس عورت نے جو کچھ بتایا وہ اس نے کس وقت دیکھا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ’جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے‘، یہ ایک پلانٹیڈ گیم تھا، اس سازش کی اصل حقیقت معلوم کرنے کےلیے پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ طاہرعلی کو اپنی تحویل میں لیکر اس کی اور عظمی کی ملائشیا میں ہونے والی ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت کا معلوم کرئے دوسرئے یہ بھی معلوم کیا جائے کہ یکم مئی سے بھارتی ہائی کمیشن میں پناہ لینے سے پہلےتک دونوں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی ۔ شاید میرئے پڑھنے والوں کو میری یہ بات عجیب لگے گی لیکن پاکستان کی معلومات لینے کا یہ بھی ایک بھارتی طریقہ ہے جس سے میرا بھی واسطہ پڑھ چکا ہے۔
بھارتی شہری عظمیٰ کیا مقصد لیکر پاکستان آئی تھی یہ تو پاکستان کے دفتر خارجہ اور داخلہ کو جلد ہی معلوم کرنا چاہیے۔ لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے بھارتی شہری عظمیٰ کو آئینہ دکھانے کی سخت ضرورت ہے کہ بھارتی اپنی ہی خواتین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔بھارتی خواتین کو عوامی جگہوں، خاندانوں اور دفتروں میں ہراساں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا ایک معمول ہے ہر جگہ عدم تحفظ کی فضاء ہے۔ عوامی مقامات ہوں یا پھر پبلک ٹرانسپورٹ، عورتوں کو کہیں بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے یا پھر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔سیکولرازم اور مساوی حقوق کے نام نہاد علمبردار بھارت میں آج بھی صنفی امتیاز برتا جاتا ہے، گزشتہ چند برسوں میں پیش آنے والے والی جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات نے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ایک امریکی سیاح خاتون کو دھرم شالہ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد ایک امریکی فیشن میگزین ’مور‘ نے بھارت کو شرمناک لقب ’’بھارت دنیا کا جنسی دارالحکومت‘‘ سے نوازا ہے۔گزشتہ دنوں امریکا سے بھارت آئی ایک طالبہ نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ’بھارت سیاحوں کے لیے جنت، پر خواتین کے لیے جہنم۔۔۔‘‘۔ بھارت میں خواتین کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ بھارتی اخبارات میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔بھارت میں اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بھارتی ’’مذہبی‘‘ پیشوا بھی اس گھناؤنے فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
بھارتی فلم انڈسٹری کی اداکاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں ہے حکومت کو اس حوالے سے قوانین بدلنے چاہئیں۔ ممبئی میں خواتین بہت زیادہ غیر محفوظ ہیں، اب تو یہ حال ہے کہ بھارتی پولیس اور فوج کے عہدیدار و اہلکار ریپ کیسوں کی اعانت کرتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاً جنسی زیادتی کے 92 مقدمے درج ہوتے ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی بہو سونیا گاندھی جسکو جمہوری بھارت میں صرف اس لیے ملک کا وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا کہ وہ ہندو نہیں ہے، وہ چلی تھی بھارتی فلم نگری کے ذریعے پاکستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے، وہ مسلم ثقافت اور پاکستانی کلچر کو شکست دینے کے دعوے کررہی تھی۔ لیکن ہوا الٹا، بھارتی فلموں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں تلاطم پیدا کردیا۔ بھارت کے نوجوان جنسی بھیڑیئے بن چکے ہیں، گھر سے باہر نکلنے والی یا گھر کے اندر رہنے والی ہر بھارتی عورت اپنے ہم وطن درندے کی درندگی کے خطرے سے دوچار ہے۔ میرا خیال ہے بھارتی شہری عظمیٰ کو اپنے بھارت کی اصل شکل نظر آگئی ہوگی۔
عظمیٰ کے بیان کے برخلاف بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ پاکستانی وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون نے عظمیٰ کا کیس بالکل اپنی بیٹی کی طرح لڑا اور جسٹس کیانی نے کیس کا فیصلہ حقائق اور انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جس کے لیے وہ ان کی شکرگزار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کے باوجود جس طرح پاکستانی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے ان کی مدد کی اس کے لیے بھی وہ شکر گزار ہیں۔ بھارتی حکومت اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ بھارتی رویے پرغور کریں اور عظمیٰ جیسے ڈرامے کرنا بند کریں ، پاکستان کے لوگوں کو بھی اور خاص کر نوجوانوں کو چاہیے کہ جب وہ ملک سے باہر جایں تو انجان بھارتیوں سے دور رہیں۔