تحریر: محمد صدیق پرہار ستمبر ١٩٦٥ء میں ہندوستان نے یہ کہہ کر پاکستان پرچڑھائی کردی تھی کہ ناشتہ لاہور میں کریں گے۔ طاقت اور غرور کے نشہ میں دھت بھارتیوں کویہ معلوم نہ تھا کہ وہ کس قوم کے ساتھ ٹکرلینے جارہے ہیں۔اسے اپنے جنگی سازو سامان پر بڑا ناز تھا کہ وہ اس کے بل بوتے پر پاکستان پرچڑھائی کرتے ہی جنگ جیت جائے گا۔اسے گھمنڈ تھا کہ پاکستان اس کی فوج اورجنگی ہتھیاردیکھ کرگھبراجائے گا اورہارمان لے گا۔پاکستان کی بہادرافواج اورغیورقوم نے ہندوستان کے اس گھمنڈ کوخاک میںملادیا۔ستمبر ١٩٦٥ء کی جنگ میں ہندوستان کوجوعبرتناک شکست ہوئی آج تک وہ اس شکست کے زخم چاٹ رہا ہے۔پاکستان کی بہادرافواج نے اس جواںمردی کے ساتھ دشمن کامقابلہ کیاکہ اس کے ہوش اڑگئے اورابھی تک اڑے ہوئے ہیں۔پاکستان سے شکست کھانے کی وجہ سے وہ حواس باختہ ہو گیا۔ اپنی اس شکست کابدلہ لینے کیلئے اس نے پاکستان سے دواورجنگیں بھی لڑیں۔ پاکستان کے ساتھ دونوں ملکوں کی سرحد پربھی وہ آئے روزچھیڑ خانی کرتا رہتا ہے۔
بلوچستان میںمداخلت، افغانستان کے ساتھ ریلیشن شپ، امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ اورحال ہی میںہونے والا امریکہ اوربھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت اورایک دوسرے کے ہوائی اڈے استعمال کرنے کامعاہدہ،نیوکلیئر سپلائرگروپ میں شمولیت کی کوششیں ، پاکستان میں آنے والے دریائوں پرڈیموںکی تعمیر، ان دریائوںکاپانی روک کرپاکستان میں خشک سالی پیداکرکے اورذخیرہ شدہ پانی کویکبارگی چھوڑ کرسیلاب سے فصلوںاورآبادی کونقصان پہچانا اس کی یہ تمام سازشیں اورمنصوبے جنگ ستمبر کا بدلہ لینے کیلئے ہی ہیں۔ بھارت کے دورے پرآئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کہتے ہیں کہ دہشت گردی دہشت گردی ہے چاہے جوبھی کرے۔دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے اچھایابرا۔امریکہ ہرقسمی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دہشت گرد دہشت کردہوتا ہے چاہے کوئی بھی ہو۔ لیکن جان کیری اورہمارے کہنے میں بہت فرق ہے۔چاہے کوئی بھی ہو جان کیری کے مطابق کوئی اورہے اورہمارے مطابق کوئی اور۔جان کیری کاکہنا ہے کہ امریکہ ہرقسمی دہشت گردی کے خلاف ہے جبکہ وہ ہرقسمی نہیں یک طرفہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔
امریکہ ہرقسمی دہشت گردی کے خلاف ہوتا تووہ ہندوستان کے ساتھ جوہری معاہدے نہ کرتا۔دہشت گردی دہشت گردی ہے توامریکہ فلسطینیوں پرظلم کرنے والے اسرائیل کا ساتھ کیوں دیتا ہے۔ امریکہ اسے جنگی سازوسامان کیوں دیتا ہے۔اگریہی بات ہے توامریکہ فلسطین، کشمیر، برما سمیت دنیابھرمیںمسلمانوں پرہونے والے ظلم کی مذمت کیوں نہیںکرتا ۔امریکہ واقعی ہرقسمی دہشت گردی کے خلاف ہے تواس نے آج تک اسرائیل اورہندوستان کے خلاف کارروائی کیوںنہیں کی۔وہ پاکستان سے توآئے روزکہتا رہتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کرے، دہشت گردوںکاخاتمہ کرے، فلاں گروپ کیخلاف کارروائی کرے، شدت پسندگروپوں کے خاتمے کیلئے مزیداقدامات کرے۔وہ ہندوستان سے کیوںنہیں کہتا کہ وہ اپنے شدت پسندگروپوں کیخلاف کارروائی کرے۔امریکہ کہتا ہے کہ دہشت گردی دہشت گردی ہوتی چاہے کوئی بھی کرے، دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے چاہے کوئی بھی ہو۔ توستمبر ١٩٦٥ء میں ہندوستان نے رات کی تاریکی میں پاکستان پرچڑھائی کردی تھی۔ اس وقت تودہشت گردی کالفظ بھی ایجادنہیں ہوا تھا۔
Terrorism
ہندوستان کے اس حملے کو امریکہ کیانام دے گا۔دہشت گردی دہشت گردی ہی ہوتی ہے توامریکہ ہندوستان کے پاکستان پرحملے کوبھی دہشت گردی ہی قراردے۔دہشت گردی دہشت گردی ہی ہوتی ہے توبابری مسجدکی شہادت کوبھی دہشت گردی تسلیم کیاجانا چاہیے۔جان کیری کاکہنا ہے کہ دہشت گرددہشت گرہوتا ہے توگجرات فسادات کے بارے میں وہ کیاکہتے ہیں وہ بھی تودہشت گردی ہے۔امریکہ گجرات فسادات کوبھی دہشت گردی کے واقعات میں شامل کرے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی بوگیوںکوآگ لگادی گئی تھی۔ سمجھوتہ ایکسپریس کی بوگیوںکوآگ لگانے کوبھی دہشت گردی قراردیا جاناچاہیے۔ہندوستان میں آئے روز گائے کاگوشت کھانے اورلے جانے کے الزام میں مسلمانوں کوبربریت کانشانہ بنایا جاتا ہے امریکہ ہرقسمی دہشت گردی کے خلاف ہے تووہ اس ظلم کوبھی دہشت گردی میں شامل کرے۔امریکی وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ امریکہ اچھے اوربرے دہشت گردوںمیں فرق نہیںکرتا دہشت گرد تو سب برے ہوتے ہیں اچھا دہشت گردکوئی بھی نہیںہوتا۔وہ اچھے اوربرے دہشت گردوںمیں فرق کرے نہ کرے مسلمان اورغیرمسلم میں فرق ضرورکرتا ہے۔امریکہ نے آج تک دہشت گردی کے خاتمے کے نام پردنیامیںجہاں بھی جنگ چھیڑی وہ مسلمان ملک میں اورمسلمانوں کیخلاف ہی چھیڑی۔ کسی غیرمسلم ملک میں اس نے آج تک یہ جنگ نہیں چھیڑی۔
امریکہ اگرواقعی اچھے اوربرے دہشت گردوںمیں فرق نہ کرتا تووہ ہندوستان اوراسرائیل کے خلاف بھی دہشت گردی کی جنگ لڑتا۔جنگ تودورکی بات ہے وہ تودونوںملکوں کی حمایت کرتا ہے۔یوں امریکہ دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں اس کی حمایت بھی کرتا ہے۔سشما سوراج کایہ کہنا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دوہرے معیارنہیں ہوسکتے ۔ان کے اورامریکہ کے کردارکی واضح نفی ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے میں دوہرامعیاربھی انہوںنے اپنارکھا ہے اوریہ بھی وہی کہتے ہیں کہ دوہرے معیارنہیںہوسکتے ۔ امریکہ اوربھارت نے ایک دوسرے کے اڈے استعمال کرنے کامعاہدہ کیا ہے۔بھارت توامریکہ کے اڈے استعمال کرنے کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی۔ کیونکہ امریکہ کے پڑوس میںکوئی ایساملک نہیں ہے جس کیخلاف وہ جنگ لڑے اورامریکہ کے اڈے استعمال کرے۔البتہ امریکہ بھارت کے اڈے استعمال کرسکتا ہے۔چاہے وہ یہ اڈے پاکستان کے خلاف استعمال کرے یاچین کے۔پاکستان نے توامریکہ کے زیراستعمال تمام اڈے واپس لے چکا ہے۔امریکہ ہندوستان کے اڈوںکوپاکستان کے خلاف ڈرون استعمال کرنے کیلئے بھی استعمال کرسکتا ہے۔
ایک دوسرے کے اڈے استعمال نہ کرنے کے معاہدے سے مستقبل میں دونوںملکوں کے کیاعزائم ہیں کااندازہ لگانامشکل نہیں۔جس طرح ستمبر١٩٦٥ء میں ہندوستان کے عزائم خاک میںمل گئے تھے اسی طرح معاہدہ کرنے والے دونوں ملکوںکے عزائم بھی خاک میںمل جائیں گے۔بات ہورہی تھی جنگ ستمبر کی کہ جان کیری کے دورہ بھارت اوردہشت گردی بارے اس کے بیانات کی طرف چلی گئی۔جنگ ستمبرمیں پاکستان کی بہادرافواج نے تواپنی بہادری کے جوجوہردکھائے وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ اس جنگ میں قوم کاجذبہ بھی قابل دیدتھا۔پوری پاکستانی قوم ہندوستان کے عزائم خاک میںملانے، اس کوعبرتناک شکست دینے اوراسے چھٹی کادودھ یاددلانے کیلئے یک جان ویک زبان تھی۔ہندوستان کوشکست فوج نے دی اورفوج کاحوصلہ قوم نے متحدہوکربڑھایا۔جنگ ستمبرکے موقع پر پاکستانی قوم میںجوجذبہ موجودتھا وہ جذبہ جس قوم میں بھی ہواس کوکوئی شکست نہیں دے سکتا۔جنگ ستمبر کے موقع پرپاکستانی قوم میںجوجذبہ، لگن، ولولہ ، جوش، جنون پایاجاتا تھا اس کی آج بھی ضرورت ہے۔شاید کسی کے خیال میںہوکہ پاکستانی قوم میںجذبہ اوراتفاق صرف جنگ ستمبر کے موقع پر تھا اس کے بعد قوم میںوہ جذبہ اوراتفاق نہیںپایا جاتا تو یہ خیال اس کودل سے ابھی سے بھی پہلے نکال دینا چاہیے۔
Pakistani Soldiers
قوم میں وہ جذبہ، وہ اتفاق اورلگن آج بھی موجود ہے۔ صرف اس جذبہ اورلگن کوبیدارکرنے کی ضرورت ہے۔ صرف جنگ ستمبرکے موقع پرہی پاکستانی قوم یک جان ویک زبان نہیںہوئی ۔ جب بھی قوم پرکوئی مشکل وقت آیا قوم میں یہ جذبہ بیدارہوگیا۔آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کے زلزلہ کے سانحہ پربھی قوم یک جان ویک زبان ہوگئی تھی۔زلزلہ متاثرین کی بحالی اورامدادکیلئے حکومتی اداروںنے جوکیا وہ توان اداروںکی ذمہ داری تھی ، عوام بھی اپنے دکھی اوربے گھربھائیوںکی مدداوربحالی کیلئے کسی سے پیچھے نہیں رہے۔جس سے بھی اپنے زلزلہ زدگان بھائیوں اوربہنوں کے دکھ کم کرنے اوران کی امدادکرنے کیلئے جوہوسکااس نے کیا۔کھانے پینے کی چیزیں، کپڑے، برتن، ادویات، نقدی جس کے پاس جوکچھ تھا اس نے زلزلہ متاثرین کیلئے دے دیا۔زلزلہ متاثرین کی بحالی اوران کی امدادکرنے میں سماجی تنظیموں نے بھی اپنابھرپورکرداراداکیا۔جب بھی سیلاب آتا ہے سیلاب زدگان کی امدادکرنے اوران کی بحالی کیلئے بھی قوم یک جان ویک زبان ہوجاتی ہے۔سیلاب توپاکستان میںہرسال آتا ہے کبھی یہ نچلے درجے کاہوتا ہے، کبھی درمیانے درجے کاتوکبھی اونچے درجے کا ہوتا ہے۔
کبھی یہ سیلاب دریائے سندھ میں آتا ہے توکبھی دریائے چناب اوراس کے پڑوسی دریائوںمیں۔سب سے زیادہ نقصان اونچے درجے کے سیلاب میںہوتا ہے۔سیلاب زدگان جواپناگھربار، فصلات چھوڑ کرمحفوظ مقامات پرمنتقل ہوجاتے ہیں وہ قوم کی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ قوم نے اپنے سیلاب زدگان بھائیوںکوکبھی مایوس نہیںکیا۔حکومتی ادارے سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے جوکرتے ہیں وہ توان کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔عوام بھی اپنے سیلاب سے متاثرہ بھائیوں اوربہنوں کیلئے جوکچھ کرسکتے ہیںکرتے ہیں ۔ کوئی خوراک فراہم کرتا ہے توکوئی ادویات کاانتظام کرتا ہے۔ کوئی لباس فراہم کرتا ہے توکوئی رہنے کیلئے جگہ دے دیتا ہے۔اب پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے بھی پاکستانی قوم یک جان ویک زبان ہے۔ہرپاکستانی ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ اورامن کاقیام چاہتا ہے۔آپریشن ضرب عضب کوپوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی بھی پوری قوم حمایت کرتی ہے۔قوم میں یہ جذبہ پہلے بھی تھا اوراب بھی ہے۔جب بھی قوم پرمشکل وقت آیا قوم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے دکھ درد دورکرنے کیلئے ایک ہوگئی۔قوم نے سیاسی، سماجی، لسانی، مذہبی، کاروباری اورتمام اختلافات ایک طرف رکھ دیئے۔قوم نے جب بھی اس جذبے اورلگن سے اپنے دکھی بھائیوں اوربہنوںکی بہتری کیلئے کسی لیڈراورراہنماکے بغیر کیا۔
زلزلہ یاسیلاب متاثرین کی امدادکرنے والوں کے لیڈربھی ہوتے ہیںاورراہنمابھی۔مگروہ قوم کے نہیں اپنی اپنی تنظیموں، جماعتوں اور پارٹیوں کے ہوتے ہیں۔پاکستانی قوم کوقوم کالیڈر مل جائے تواس جذبہ کوجنگ ستمبرسے بھی زیادہ بیداراورفعال کیاجاسکتا ہے۔قوم میںتوجذبہ موجود ہے ہمارے سیاستدانوںمیں بھی یہی جذبہ بیداراورفعال ہوجائے توملک کی تقدیرہی بدل جائے گی۔جس طرح قوم جنگ ستمبر کے موقع پر، زلزلہ اورسیلاب متاثرین کی بحالی اورامدادکیلئے یک جان ویک زبان ہوجاتی ہے اسی طرح یہ قوم ملک سے کرپشن، لوٹ مار، ناجائزمنافع خوری، رشوت، سود، نے روزگاری، سفارش، اقرباء پروری ،لوڈشیڈنگ، مہنگائی، گراں فروشی کے خاتمے کیلئے بھی یک جا ن ویک زبان ہوجائے توپاکستان سے یہ بیماریاں بھی کم سے کم ہوسکتی ہیں۔ملک کے سیاستدانوں کو بھی ملک سے غربت، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری،رشوت، سفارش، اقرباء پروری کے خاتمے کیلئے یک جان ویک زبان ہوجائیں توملک وقوم دونوںکی تقدیربدل جائے گی۔ دشمن کے عزائم اورسازشیں اب بھی جاری ہیں ان سازشوں اورعزائم کوناکام بنانے کیلئے اس لیے قوم کے ساتھ ساتھ سیاستدانوںکاہر دو ر حکومت میںاورہرموقع پریک جان ویک زبان ہوناضروری ہے۔