پاکستان کا اذلی بزدل دشمن بھارت 1947 سے ہی ہمارے ملک پاکستان کے وجود کا انکار کر رہا ہے ۔ کبھی افراتفری کبھی فرقہ واردیت سے ملک پاکستان کو کمزور بلکہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ناپاک کوشش کرتا رہتا ہے ۔ افسوس غدار وطن اور منافق لوگ کبھی کبھار معصوم اور سادہ غریب محب وطن پاکستانی دشمن یا دشمن کے ایجنٹوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور ملک پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہو کر دنیا اور آخرت کی لعنتیں اپنے نام کر لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم سے ہمارا بازو ( بنگلہ دیش ) الگ ہے۔
انڈیا اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے علاقہ میں ” تھانیدار ” بنکر پاکستان پر اپنا ناجائز حکم چلانے کا خواب دیکھتا رہتا ہے یہ خواب ایسے ہی ہے جس طرح ” چرسی نشہ کر کے جاگتے ہوئے جنت میں جانے کا خواب دیکھتا ہے۔ ایسے ہی خواب کو دیکھتے ہوئے بھارت نے نے 11 مئی 1998ء کو فشن (ایٹم بم) تھرمو نیوکلیئر (ہائیڈروجن) اور نیوکران بموں کے دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کیلئے خطرات پیدا کر دیئے تھے اور علاقہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ جسے روکنے کیلئے پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں کی طرف سے سخت ترین دباوَ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔
پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ازلی دشمن ملک بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی ۖ کے عاشقوں کے ملک ِپاکستان کو ” ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بنادیا ” یااللہ تیرا شکر ہے!
چاغی میں ہونیوالے دھماکوں کی قوت بھارت کے 43کلو ٹن کے مقابلے میں 50 کلو ٹن تھی۔ پاکستان کے ( ایٹمی دھماکوں ) کے اقدام کو امریکہ اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی۔ اُس وقت کے امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان پر بہت زیادہ دباوَ ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرے ورنہ پاکستان کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف بھارت کی معاندانہ سرگرمیوں کی صورتحال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع کر دی تھی۔ بھارت اور پاکستان جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ بھارتی وزیر داخلہ اور امور کشمیر کے انچارج ایل کے ایڈوانی نے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ مجاہدین کے کیمپ تباہ کرنے کیلئے آزاد کشمیر میں داخل ہو جائے جبکہ بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے تو یہاں تک ہرزہ سرائی کی تھی کہ بھارتی فوج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا جائے گا۔
یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی تیاریاں تھیں۔ اصل میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف پاکستان کو خوفزدہ کرنا تھا اور ایک طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دیکر پاکستان سمیت پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تھا۔ اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ بھارت کے تکبر اور غرور آسمان کو چھونے لگا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اس ارض وطن پر دشمنان اسلام کے عزائم کی کامیابی کسی صورت گوارا نہ تھی جسکے چپے چپے پر ابھی تک پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے جن عناصر نے حب الوطنی اور اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی کردار ادا کیا’ ان میں روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی سرفہرست ہیں اور یہ بات تاریخی شواہد کی بنیاد پر واشگاف الفاظ میں کہی جاسکتی ہے کہ اگر جناب مجید نظامی اس معاملے میں حکومت وقت سے قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ بعض قوتیں مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کی ذمہ دار قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی مگر یہ مجید نظامی ہی تھے کہ جنہوں نے اس حوالے سے نوائے وقت کی جاری کردہ استحکام پاکستان تحریک کو نقطہَ عروج تک پہنچا دیا۔ اس گو مگو کی کیفیت میں واحد آواز نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کی تھی جنہوں نے بڑی جراَت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔
انہوں نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کرو ادیں ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ جناب مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ آپ ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آپ کو دوہری وارننگ کا سامنا ہے۔ اگر دھماکہ کرتے ہیں تو ممکن ہے امریکہ آپ کا دھماکہ کر دے مگر قومی اور ملکی سالمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ ایٹمی دھماکہ کریں۔ 28 مئی 1998ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیت میں جب پاکستانی حکومت نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا۔ عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ امریکہ نے پاکستانی حکومت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کیلئے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر حکومت نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا۔ دھماکے کرنے کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلیویژن پر کہا کہ ہم نے بھارت کا حساب بے باک کر دیا۔
بزدل دشمن ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا۔ دفاعی پابندیاں لگیں تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی سرخرو ہوں گے۔ یومِ تکبیر اس امر کا پیغام دیتا ہے کہ اگر اس غریب قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ایٹمی قوت حاصل کرلی ہے۔ تو وہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس کی حفاظت کرنا بھی جانتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور امریکہ’ بھارت سمیت کسی بھی ملک کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ کوئی کھیل کھیلے۔ پاکستان کی سالمیت مقدم اور ایٹمی اثاثے ایک قوت ہیں جو اس کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں۔ ہم ایک عوامی قوت ہیں۔ ہم ایک عسکری قوت ہیں اور ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور سبز ہلالی پرچم کوانہی قوتوں کو یکجا رکھ کر سربلند وسرخرو رکھا جاسکتا ہے۔ یومِ تکبیر اس امر کا پیغام دینا ہے کہ پاکستان انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی قو میں مشکلات اور بحرانوں سے نکل کر ہی ترقی اور استحکام حاصل کرتی ہیں۔
گزارش ہے کہ ” یومِ تکبیر ” کو ” حُب الوطنی اور حُب الاسلا م ” کے طور پر منایا جائے اور اس میں کسی قسم کی ”کوتائی یا سیاست ” شامل نہ ہو کیونکہ پاکستان دنیا کی ساتویں مگر عالم ِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت 28 مئی کو بنا مطلب پوری اُمتِ مسلمہ یوم تکبیر(28 مئی) پاکستان کے ساتھ مناتی ہے۔