تحریر : علی عمران شاہین بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالنے کے بعد اول دن سے پاکستان کے خلاف جس جارحانہ پالیسی کو اپنایا تھا، اس میں ہر روز تیزی آ رہی ہے۔ نریندر مودی نے ملک کی کی حکومت سنبھالنے سے پہلے جنوبی ایشیا کے سربراہان مملکت کو تقریب حلف برداری میں خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ اس طرح کی تقریب حلف برداری میں کئی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے علاوہ سبھی ممالک کو دنیا بھارت کا کمی کمین ہی سمجھتی ہے اور ان میں پر بھارت نے ایسا دبائو رکھا ہوا ہے کہ سبھی اس کی ہر ”ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں” ملاتے ہیں۔ سو وہ تو سبھی بھاگم بھاگ نئی دہلی پہنچے لیکن پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے اس امید کے اظہار کے ساتھ کے ساتھ بھارت کا سفر کیا تھا کہ اس سے دو نئے وزرائے اعظم کے مابین نئے تعلقات استوار ہوں گے۔ امن کی شمعیں روشن ہوں گی او رخطے کے پونے 2ارب انسانوں کو نیا اطمینان اور سکون حاصل ہو گا۔ پاکستانی وزیراعظم نے رسم دنیا کے تحت یہ کڑوا گھونٹ بھرا لیکن… پھر کیا ہوا کہ نریندر مودی نے اپنی والدہ کے لئے ساڑھیوں کے تحفے اور آم کی پیٹیاں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو سیدھا نشانے پر رکھ لیا۔ ساری دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کے لئے عالمی مہم چلائی، معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچا دیا اور اب کشمیریوں کی تحریک آزادی سے جھنجھلا اور اکتا کر نریندر مودی نے پاکستان مخالفت میں نئے سے نئے پینترے بدلنے شروع کر دیئے ہیں۔
نریندر مودی نے بار بار کہنا شروع کر رکھا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے ختم کر کے ”اپنے ملک کا پانی” پاکستان جانے سے روک دیں گے۔ ویسے تو بھارت یہ کام تقسیم ہند کے بعد سے ہر روز کر ہی رہا تھا۔ 19ستمبر 1960ء کو کراچی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے بعد بھارت نے جب قانونی طور پر تین دریا حاصل کر لئے تو ان کی اس زمانے سے اب تک ایک (سوائے سیلاب سے)بوند ہمارے ہاں نہیں آتی۔پاکستان کی معیشت کا بنیادی انحصار زراعت پر ہے جس کے لئے پانی ہی بنیادی ماخذ ہے۔ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا سیدھامطلب پاکستان کے حصے کے تین دریائوں چناب، جہلم اور سندھ کی بندش ہے جو پاکستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ایک عرصہ سے بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور دریائے جہلم پر اس کے زیرتعمیر ڈیموں کے مقدمات لے کر عالمی فورمز پر مقدمات لڑ رہا ہے لیکن عالمی ادارے ہر بار بھارت کو ڈیموں کی تعمیر سے روکنا تو کجا باقاعدہ تعمیر کرنے کے قانونی سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اس وقت جب کہ ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے اور پانی کا قضیہ پورے عروج پر ہے۔
اس معاہدے کے ضامن عالمی بینک نے پاکستان و بھارت دونوں سے کہا ہے کہ وہ یہ قضیہ لے کر اب ان کے پاس نہ آئیں بلکہ وہ باہم معاملہ خود ہی حل کریں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ اس معاہدے کو سرے سے ہی ختم کر دے جبکہ پاکستان فی الحال کہہ رہا ہے کہ بھارت اس معاہدے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آخر یہ تماشا اس طرح کب تک چل سکتا ہے۔ بھارت نے دریائے چناب پر ڈیم پر ڈیم بنانے کے ساتھ اب ایک 47کلومیٹر طویل سرنگ کھودنا شروع کر رکھی ہے اور پانی کا راستہ ہی بدلنے پہ کام تیز تر کر رکھا ہے۔ اس نے اس سے پہلے بھلا کب اور کس موقع پر کسی عالمی معاہدے کی پروا کی ہے کہ وہ اب پابندی کرے گا۔ ہمیں اب اس دھوکے و فریب سے نکلنا ہو گا۔ لیکن ایسے وقت میں جب بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ مقبوضہ جموں کشمیر کی سرزمین پر کھڑے ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ انہوں نے پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے اب پاکستان کے دس ٹکڑے بھی کئے جا سکتے ہیں، ہمارے ہاں کی خاموشی سے لگتا ہے کہ جیسے ہمارے سیاستدان کوئی نشہ آور دوا پی کر مزے کی نیند سو رہے ہیں۔ وطن عزیز کی تاریخ میں 16دسمبر کا دن ایسا المناک دن ہے جب پاک فوج کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
Islam
اسلام کی اس سے قبل 14سو سال کی تاریخ میں ایسا حادثہ نہیں ہوا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں فوج دشمن کے سامنے یوں ہتھیار ڈال دے لیکن ہمارے ہاں ایک بڑے طبقہ کی کوشش یہ ہے کہ اس حادثے کو سب بھول جائیں۔ 16دسمبر کو اس حادثے کے حوالے سے بات کرنے اور اس کا انتقام لینے کا عزم و ارادہ کرنے والے کتنے تھے؟ نریندر مودی نے دورہ بنگلہ دیش میں کھلے بندوں یہ کہا تھا کہ پاکستان انہوں نے توڑا تھا اور انہیں فخر ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس میں شریک تھے۔ عین اس بار بھی 16دسمبر کے دن میں نریندر مودی نے یہ بیان دہرایا۔ اس سے ماقبل کے بیان پر تو حکومت پاکستان نے اتنا کہا تھا کہ وہ یہ معاملہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں اٹھائیں گے لیکن اس بار تو اتنی بھی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ عین اس وقت بھارت نے نکیال سیکٹر میں سکول کے بچوں کی وین پر فائر کھول دیا اور وین ڈرائیور اور ایک بچے کو شہید، متعدد کو گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔ کیا کمال ہے کہ بھارت کی جانب سے اس قدر دشمنی اور حملوں کے باوجود ہمارا میڈیا ہی نہیں اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے ترستے سیاستدانوں تک سب کے سب ”مست الست” پڑے ہوئے ہیں۔
ذرا بھارت کو ہی دیکھ لیں کہ جہاں کا میڈیا ہر وقت اپنے ملک کے دفاع اور ہر وقت پاکستان کے خلاف طرح طرح کے پراپیگنڈے میں مصروف رہتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کہانی بالکل الٹ دکھائی دیتی ہے، نجانے بھارت کے پاس ہمارے سبھی حلقوں کی وہ کون سی خفیہ فائل ہے کہ جس کے افشا ہونے کے ڈر سے سبھی دبکے رہتے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ملک میں بھارتی فلموں کی نمائش کھولی جا رہی ہے۔ بھارت نے تو عرصہ دراز سے اپنے ہاں پاکستانی میڈیا کو مکمل بند کر رکھا ہے اگرچہ ہمارا میڈیا بھی اکثر و بیشتر انہی کے مفادات کی چوکیدار کرتا ہے لیکن انہیں اتنا بھی قبول نہیں کہ کسی کا تعلق کسی بھی لحاظ سے پاکستان سے ہو اور وہ ان کے ہاں دکھائی دیتا رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی سے ساری دنیا کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے اس لئے مقبوضہ کشمیر میں بے تحاشہ ظلم و ستم کے باوجود کوئی بھارت کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں بولنے کو تیار نہیں لیکن آخر ہم کیوں اس سب پر مکمل دفاعی پالیسی اپنا کر بیٹھے ہیں۔ بھارت کے ہاتھوں سسک سسک کر ذلت کی موت مرنے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنے آباء کے سنہری قول ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” کو ایک بار ہی سہی لیکن اپنا لیں۔ یہ جملہ بولنے والے سلطان ٹیپو نے انگریز سے جنگ و جہاد میں شہادت پائی لیکن ان کی دلیری کی وجہ سے بھارتی لوگ ہی نہیں، ساری دنیا میں سلام کرنے پر مجبور ہے۔ ان کی عزت و توقیر آج بھی ہر روز پہلے سے بڑھ کر ہے تو پھر آئیے کہ ہم ایک بار بھارت کے خلاف کھل کر اور متحد ہو کر میدان میں آ جائیں کیونکہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ہمارے پائوں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے اور وقت کم سے کم ہورہا ہے۔