اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سال دو ہزار انیس میں جنوبی ایشیا کے ایٹمی صلاحیت کے حامل ان ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی اپنے عروج پر رہی۔ پاک بھارت جنگ کا خطرہ بھی منڈلاتا رہا لیکن بین الاقوامی کوششوں اور دباؤ کے باعث جنگ نہ ہوئی۔
سال دو ہزار انیس کے دوران پاکستان اور بھارت میں سفارتی اور عسکری سطح پر باہمی کشیدگی میں اضافہ ہوا، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ وقفے وقفے سے جاری رہی، دونوں طرف سے سویلین اور فوجی ہلاکتوں کی اطلاعات ملتی رہیں اور اسی سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سے زائد مرتبہ پاک بھارت تنازعات کے تصفیے کے لیےثالثی کی پیشکش کی۔
دونوں ملکوں میں تنازعات کے حل کے لیے ماضی میں شروع ہونے والے جامع مذاکرات تو پہلے سے ہی معطل ہیں۔ لیکن اس سال بھی دونوں ملک باہمی بد اعتمادی کی وجہ سے کشمیر، سیاچین، سرکریک اور پانی کی تقسیم سمیت متعدد تنازعات کے حل کے لیے گفتگو پر راضی نہ ہو سکے۔
پاک بھارت تعلقات میں معمول کی کشیدگی تو سال نو کے آغاز پر بھی موجود تھی لیکن اس میں پلوامہ واقعے کے بعد شدت آ گئی۔ چودہ فروری کو کشمیری علاقے پلوامہ میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں چالیس سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگایا جبکہ پاکستان اس کی تردید کرتا رہا۔
اس واقعے کے چند دن بعد بھارتی جنگی طیارے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے اور بھارت کی طرف سے بالا کوٹ کے قریب جیش محمد کا ایک مبینہ کیمپ تباہ کرنے کا دعوی کیا گیا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ بھارتی جنگی طیارے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔
اس سے اگلے دن ہونے والی ایک فضائی جھڑپ کے نتیجے میں بھارت کا ایک جنگی طیارہ تباہ ہو گیا اور اس کے پائلٹ ابھینندن کو پاکستان نے گرفتار کر لیا، جسے بعد ازاں بھارت کو واپس کر دیا گیا۔
بھارت کی طرف سے آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کے ذریعے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے ختم کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ پاکستان نے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر دی اور بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھجوا دیا اور اعلان کیا کہ پاکستان اپنا نیا ہائی کمشنر بھارت نہیں بھیجے گا۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور دوستی بس سروس بھی بند ہو گئی۔
اسی سال پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا عالمی عدالت انصاف میں بھی ہوا، جہاں جاسوسی کے الزام میں سزائے موت پانے والے بھارتی نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کے مقدمے کا فیصلہ ہوا۔ دونوں ملکوں نے اس فیصلے کی تعبیر اپنے اپنے انداز میں کی۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کو قونصلر تک رسائی دینے کا حکم دیا البتہ سزائے موت کے حکم کو تبدیل یا منسوخ کرنے سے گریز کیا۔
مستقبل میں جب بھی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے دو ہزار انیس کی بات ہو گی تو کرتار پور راہداری کا ذکر ضرور ہو گا۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کے آخری اٹھارہ سالوں کے مسکن گوردوارہ دربار صاحب کی یاترا کے لیے بھارتی سکھوں کو ویزہ فری انٹری دینے کے پاکستان کے اس منصوبے کو دنیا بھر کے سکھوں کی طرف سے سراہا گیا۔ سال کے آخر میں دونوں ملکوں نے کرتار پور راہداری کا الگ الگ افتتاح کیا لیکن یہ منصوبہ بھی دو ملکوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی کی خلیج کو نہیں پاٹ سکا۔
پاک بھارت امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ دو ہزار انیس میں پاکستان اور بھارت کے مابین سوسائٹی ٹو سوسائٹی تعلقات بھی بری طرح متاثر رہے۔ فلموں پر پابندی رہی، ویزوں کا حصول مشکل ہو گیا، فنکاروں کے دورے ختم ہو کر رہ گئے، اسی طرح تجارتی تعلقات بھی بڑی حد تک ختم ہو گئے۔ ان کے بقول بھارت میں سامنے آنے والے متنازعہ شہریت بل نے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثر ڈالا۔
ڈاکٹر عسکری کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے، ”بھارت میں مودی حکومت اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے وزیراعظم مودی ان حالات میں اپنی سپورٹ کی بنیاد، پاکستان مخالف جذبات کے حامل ہارڈ لائنر ہندوگروپوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔‘‘
اس لیے ڈاکٹر عسکری کے بقول اس سال یہی بہت ہے کہ دونوں ملکوں میں جنگ نہیں ہوئی، اب کوشش یہ ہونی چاہیے کہ لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی میں کسی طرح کمی لائی جا سکے۔
سابق سفارت کار اقبال احمد خان کا کہنا ہے کہ سال دو ہزار انیس میں پاک بھارت تعلقات میں جس سطح کی کشیدگی دیکھی گئی، اس کی مثالیں دونوں ملکوں کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت کی حامل یہ دونوں ریاستیں اپنے اُن اختلافات کے خاتمے کے لیے بات چیت کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں جن پر کئی جنگیں ہو چکی ہیں، ” اگر اس صورتحال کو بہتر کرنا ہے تو کسی کو تو بات چیت کے لیے پہل کرنا ہوگی۔‘‘
اقبال احمد خان کے مطابق اگر پاکستان نے اس خطے میں تجارتی مرکز بننا ہے تو پھر بات چیت کی طرف آنا ہو گا اور بھارت کو بھی سی پیک میں شامل کرتے ہوئے مشترکہ تجارتی مفادات سے پیدا ہونے والی گُڈ وِل سے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
سینئر تجزیہ کار راشد رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک بھارت تعلقات میں پائی جانے والی روایتی کشیدگی کا تسلسل دو ہزار انیس میں بھی ہمیں نظر آیا اور دونوں ملک اپنے اپنے اندرونی مسائل کی ذمہ داری بیرونی عوامل پر ڈالتے رہے۔ ان کے خیال میں بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے۔