واشنگٹن (جیوڈیسک) بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کے معاملے پر’’تحمل برتنے‘‘ اور ’’مذاکرات کی راہ اپنانے‘‘ پر زور دیتے ہوئے، محکمہ ٴخارجہ نے کہا ہے کہ ’’جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنا‘‘ جوہری ملکوں کی ’’واضح ذمہ داری ہے‘‘۔
اخباری بریفنگ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، معاون ترجمان، مارک ٹونر نے جمعے کے روز اِس بات تصدیق کی کہ جنوبی ایشیا دونوں ملکوں کی جانب سے کی گئی سخت گیر بیان بازی اُن کی نظروں سے گزری ہے۔ اِس ضمن میں، ایک اخباری نمائندے نے ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی آج کی ایک رپورٹ کا ذکر کیا۔
ترجمان نے کہا کہ دونوں ہمسایوں میں تناؤ کی صورت حال، ’’کسی کے مفاد میں نہیں‘‘، اور یہ کہ جوہری معاملے پر کسی قسم کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی ’قابلِ ’تشویش‘‘ معاملہ ہے۔
مارک ٹونر نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کی فوج کے اعلیٰ سطحی رابطے ہوئے ہیں، اور اِس توقع کا اظہار کیا کہ کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ، اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل، امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی بھارتی بیرونی امور کی وزیر سشما سوراج؛ اور دیگر اعلیٰ حکام سے گفتگو ہوئی ہے، جس کے متعلق باضابطہ اخباری بیان جاری کیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ’’اس معاملے پر ہمیں تشویش ہے اور ہم چاہیں گے کہ کشیدگی نہ بڑھے‘‘۔
سرحد پار دراندازی اور تمام مختلف شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر، ترجمان نے کہا کہ ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان لشکر طیبہ، حقانی نیٹ ورک اور جیش محمد کے خلاف بلا تفریق، سخت کارروائی کرے‘‘۔
اس سوال پر آیا بھارت کی جانب سے فی الواقع کسی طرح کی ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کی گئیں، ترجمان نے کہا کہ اس بات کی تصدیق کرنا یا نہ کرنا اُن کا کام نہیں۔