اسلام آباد (جیوڈیسک) بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ملک کے یوم آزادی کے موقع پر پیر ’15 اگست‘ کو اپنی تقریر میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
نئی دہلی کے لال قلعہ میں منعقدہ تقریب کے موقع پر خطاب میں بھارت کے وزیراعظم نے اپنے ملک کے زیرانتظام کشمیر میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری احتجاج کا براہ راست ذکر کیے بغیر اس ضمن میں پاکستان کو ہدف تنقید بنایا۔
’’ان کی طرف دیکھ لیجیئے جہاں دہشت گردوں کی تعریف کی جا رہی ہے۔ جب معصوم دہشت گردوں کے ہاتھوں لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ اس کا جشن مناتے ہیں۔ یہ دہشت گردوں کے نظریے سے متاثر کیسی زندگی ہے؟ یہ دہشت گردوں سے متاثر کیسا حکومتی نظام ہے؟، دنیا اس کے بارے میں جان لے گی، اتنا میرے لیے کافی ہے۔‘‘
بھارت کے وزیراعظم کی تقریر پر ردعمل میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیراعظم مودی کا بیان گزشتہ کئی ہفتوں سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کے وزیراعظم کا بلوچستان کے بارے میں بیان پاکستان کے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ ’’بھارت اپنی انٹیلی جنس ایجنسی را کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ اس کی تصدیق بلوچستان سے گرفتار کیے گئے ’’را کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کے اعترافی بیان سے بھی ہوتی ہے۔‘‘
نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بلوچستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بسنے والوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے پر وہاں کے لوگوں نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت جاری لہر وہاں کے لوگوں کی اپنی تحریک ہے اور ان کے بقول اس تناظر میں پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ گولیاں سے حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔
ادھر بھارتی فوج نے دعوی کیا کہ انھوں نے پاکستان سے شمالی کشمیر میں داخل ہونے والے دو مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
پیر کو بھارت کے وزیراعظم نے ملک میں جاری شدت پسندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی حکومت عسکریت پسندی کے سامنے نہیں جھکے گی۔
’’میں ان نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں (جنہوں نے بندوقیں اٹھا رکھی ہیں) کہ یہ حکومت تشدد اور عسکریت پسندی کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی اور شدت پسندی کے سامنے کبھی نہیں جھکے گی۔‘‘
واضح رہے کہ ایک روز قبل یعنی اتوار کو پاکستان نے اپنے یوم آزادی کے دن کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تحریک سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ماہ بھارتی کشمیر میں ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں ہلاکت کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نے نواز شریف نے انھیں شہید قرار دیا تھا جس پر بھارت نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیے جانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ ہفتوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں سخت بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ دونوں ہی ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے پر فائرنگ میں پہل کا الزام عائد کیا گیا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے ایک بیان کے مطابق پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے اتوار کو اپنے بھارت ہم منصب سے رابطہ کر کے پاکستانی چوکیوں اور سویلین پر بھارتی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے معاملے پر احتجاج کیا۔