تحریر:مہر بشارت صدیقی ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں سات سال سے سہہ روزہ نظریہ پاکستان کانفرنس نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تحت باقاعدگی سے منعقد ہو رہی ہے۔کانفرنس میں کارکنان تحریک پاکستان، اندرون و بیرون ملک سے نظریہ پاکستان فورمز کے عہدیداروں، کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کے نمائندہ وفود شرکت کرتے ہیں۔ امسال کانفرنس کامرکزی موضوع ”خطے کے بدلتے تناظر میں نظریہ پاکستان قومی استحکام کی ضمانت” تھا۔
افتتاحی نشست میں محمد رفیق تارڑنے کارکنان تحریک پاکستان (گولڈ میڈلٹس) کے ساتھ پرچم کشائی کی۔ کانفرنس کے پہلے دن سب سے اہم سیشن ”تعمیر ملت کے لئے علماء اور مشائخ کی ذمہ داریاں” ہوا۔ کانفرنس کے پہلے روز دوسرے سیشن میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، آبروئے صحافت و سابق چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کا 25 اکتوبر 2008ء کو پہلی سالانہ نظریہ پاکستان کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کئے گئے تاریخی خطاب کی ریکارڈنگ سنائی گئی۔ ڈاکٹر مجید نظامی کا خطاب سن کر وائیں ہال میں موجود لوگوں نے نعرے لگائے اور پرجوش تالیاں بجائیں۔اس موقع پر بہت سے افراد آبدیدہ ہو گئے۔ مجید نظامی کا یہ خطاب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا پالیسی بیان بھی تھا۔
مجید نظامی نے کہا کہ یہ کانفرنس تجدید عہد کیلئے بلائی گئی ہے’ وہ عہد جو ہم نے ”پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الٰہ الا اللہ” قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے کیا تھا۔ ہمیں چاہئے کہ 1947ء میں کئے گئے اس عہد کو ضرور پورا کریں۔انہوں نے کہا میں نے اپنی پوری زندگی ڈکٹیٹروں سے متھا لگانے میں گزار دی۔ ایوب خان’ ضیاء الحق اور پرویز مشرف ‘ میں نے سب کا مقابلہ کیا’اپنے اخبار کے ذریعے بھی اور اس ایوان میں بھی۔انہوں نے کہا اس وقت ہمارا نصب العین صرف اور صرف یہ ہے کہ اس ملک میں جو مسلم لیگیں مختلف ناموں سے قائم ہیں’ انہیں متحد کیا جائے۔ہم تمام مسلم لیگی لیڈروں کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ وہ جماعت ہے جس نے پاکستان کو جنم دیا تھا۔اس نے یہ زمین چھین کر پاکستان بنایا تھا۔ ہندو بھی کہتے تھے کہ آپ نے ہماری گائوماتا کے دو ٹکڑے کر دیئے ہیں۔
افسوس کہ ہم اس ملک کو قائداعظم اور اقبال کے ویڑن کے مطابق نہ بنا سکے۔ انہوںنے مزید کہا کہ ہم تو رخت سفر باندھ چکے ہیں اور اب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری موجودہ نسل پاکستان کو قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کا پاکستان بنائے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا تو ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کا ہے۔ میں آپ سے پھر گزارش کروں گا کہ بھارت سے محتاط رہیے کیونکہ یہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے والوںکی حوصلہ شکنی کیجئے۔ ہماری اس کے ساتھ دوستی نہیں ہو سکتی۔ کشمیر اور فاٹا میں جو کچھ ہو رہا ہے’ وہ سب کچھ بھارت کررہا ہے لیکن ہم دہشت گردی کو اپنا ایجنڈا بنا رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ بھارت کی نظر میں کشمیری دہشت گرد ہیں جبکہ کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
مجید نظامی نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے میں ایٹم بم بن کر بھارت پر گر جائوں۔ جب میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کرنے والے تھے تو اْنہیں امریکی کے صدر نے پانچ ٹیلیفون کئے اور یہ لالچ بھی دیا کہ آپ کے اکائونٹ میں کروڑوں ڈالر جمع کروادیتے ہیں مگر آپ یہ دھماکہ نہ کریں۔میاںنواز شریف نے جن ایڈیٹرز کو مشاورت کیلئے بلایا، اْن میں مَیں بھی تھا۔ میں نے کہا میاں صاحب دھماکہ کیجئے۔اگر آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میاں نواز شریف نے دھماکہ کر دیا اور پاکستان ایک ایٹمی ملک بن گیا۔ دوسرے دن کی نشست میں ”قومی ترقی کیلئے نوجوانوں میں سائنس ٹیکنالوجی اور تحقیقی سرگرمیوں کا فروغ ناگزیر ہے”، ”بحرانوں میں گھرے پاکستان کو امن ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے تقاضے”، ”بڑی طاقتوں کی سیاسی، ثقافتی، معاشی اجارہ داری اور پاکستان کا مستقبل” اور ”الیکٹرانک میڈیا پر بھارتی ثقافتی یلغار اور ہماری ذمہ داریاں” کے موضوعات پر مقررین نے اظہار خیال کیا۔
چھٹی نشست کاموضوع ”حق خود ارادیت کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد اور الحاق پاکستان” تھا جس سے کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکن امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے خطاب کیااور کہا کہ حق خودارادیت اور الحاق پاکستان مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہیں۔ ہم کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دہشت گردی کی بجائے ان کا جائز حق قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے رشتے سے ہم کشمیری ہیں کشمیر ہمارا ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، ان حالات میں مسئلہ کشمیر کا واحد حل جہاد ہے۔ نشست کا عنوان حق خودارادیت کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد اور الحاق پاکستان تھا۔ اس موقع پر وائس چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، خانوادہ حضرت سلطان باہو کے صاحبزادہ سلطان احمد علی، کشمیری رہنما مولانا محمد شفیع جوش، سید نصیب اللہ گردیزی، رکن صوبائی اسمبلی رانا تجمل حسین، یحییٰ مجاہد، انجینئر مشتاق محمود اور انجینئر محمدطفیل ملک سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کثیر تعداد میں موجود تھے۔
Hafiz Mohammad Saeed
حافظ محمد سعید نے کہا کہ حق خودارادیت اور الحاق پاکستان مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہیں۔ نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں محض اس لیے لیکر گیا تھا کہ اْس وقت آزادی کے متوالے قربانیاں دیتے ہوئے دریائے جہلم عبور کر کے سرینگر کے قریب پہنچ چکے تھے نہرو کو پریشانی ہوئی کہ کشمیر ہاتھ سے نکل گیا تو بات بہت آگے بڑھ جائے گی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے بعد جنگ روک دی گئی اسے پاکستان اور مجاہدین نے بھی مان لیا۔اس کے بعد کی ایسی بھیانک تاریخ ہے جس سے پوری قوم بالخصوص نئی نسل کو آگاہ کرنا چاہئے۔بھارت نے کشمیر پر قبضہ مضبوط اور مسلمانوں پر مظالم کرنا شروع کر دئیے۔
بھارت نے مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں بدلنے کی کوششیں کیں۔ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔اْس وقت ضرورت اس امر کی تھی پاکستان دنیا کے سامنے اپنا موقف واضح انداز میں پیش کرتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بھارت کی طرف سے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا پاکستان کے اندر نوٹس نہیں لیا جارہا۔جو کشمیری اس مسئلے کو اٹھاتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔بھارت مسلسل بد عہدی کرہا ہے ہم نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ ہم کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشتگردی کی بجائے ان کا جائز حق قرار دیتے ہیں،آج پرویز مشرف بڑی اچھی باتیں کررہے ہیں لیکن جب وہ اقتدار میں تھے
تو انہوں نے تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے والوں کو دہشتگرد کیوں تسلیم کیا تھا؟ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے، اب منافقانہ روش نہیں چلے گی فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی بھی اسلامی رشتے کی بات کرر ہے ہیں اور یہی نظریہ پاکستان ہے۔ ہم بھارت کا اصل چہرہ ہر سطح پر بے نقاب کریں گے۔ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج موجود ہے جبکہ عام ہندوئوں کو بھی اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے، اس کا نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ ان حالات میں مسئلہ کشمیر کا واحد حل جہاد ہے۔ ہم کسی کی بات پر یقین نہیں کرتے اور اپنے رب کے حکم کے مطابق جہاد سے یہ مسئلہ حل کریں گے۔صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس پلیٹ فارم پر وطن عزیز کے مسائل پر نگاہ ڈالنے اور اس کو حل کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔
بھارت کے ساتھ مذاکرات اپنی شرائط پر شروع کئے جائیں ان سے یہ کہا جائے کہ ہمارے سفیر کا کشمیری قیادت سے ملنا ہر لحاظ سے درست ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ آج کشمیر میں آبادی کا تناسب وہ نہیں ہے جو 1947ء میں تھا۔ بھارتی حکومت کے لاگو کئے گئے قوانین انسانیت اور اخلاقیات کے درجے سے گرے ہوئے ہیں۔ جس گھٹن کے اند رکشمیری رہ رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ پاکستان کو ان کالے قوانین کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں دائر کرنا چاہیے۔ اگر ہم بطور پاکستانی کشمیریوں کے حق میں آواز میں نہیں اْٹھاتے تو ہم بھی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم میں برابر کے حصے دار ہیں۔ پروگرام کے آخر میںڈاکٹر رفیق احمد نے حافظ محمد سعید، صاحبزادہ سلطان احمد علی،مولانا محمد شفیع جوش، سید نصیب اللہ گردیزی، رانا تجمل حسین اور یحییٰ مجاہد کو کانفرنس میں شرکت کی یادگاری شیلڈ پیش کیں۔