تحریر : شیخ خالد زاہد پاکستان کے معاشی مفادات بہت حد تک کراچی کے حالات پر انحصار کرتے ہیں۔ یوں تو پورا ملک ہی دہشت گردی کی زدمیں رہا ہے مگر جو کچھ کراچی میں ہوا وہ پاکستان کی تاریخ کے اوراق کاسیاہ ترین باب تھا۔ اس تاریک دور کی مرہونِ منت پاکستان مسلسل معاشی بدحالی کا شکار ہوتا چلا گیا اور کراچی جیسا روشنیوں کا شہر تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا، ساتھ ہی کراچی شہر کی معاشرتی زندگی بھی تباہ ہوتی چلی گئی۔ بین الاقوامی سرمایا دار جو کراچی کو تجارت کیلئے سونے کی چڑیا سمجھتے تھے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کراچی کا نام لیتے ہوئے خوف زدہ دیکھائی دینے لگے۔ اگر اجتماعی مفادات پر انفرادی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے تو بڑے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے کہ ملک کے مفادات پر انفرادی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی جسکی ایک مثال تو سن ۷۱ میں سقوط ڈھاکا کی ہے اورزندہ مثال آجکل اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی دیکھی جاسکتی ہے جہاں ہماری اعلی عدلیہ نے تمام باضابطہ تفتیش اور تحقیق کے بعد میاں نواز شریف صاحب اور انکے اہل خانہ کو مجرم قرار دے دیا ہے مگر وہ انفرادیت اور ذاتیات کی خاطر ملک کو مشکل سے دوچار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ پاکستان کے مفادات پر انفرادی مفادات کو ترجیح دی جاتی رہے اور پاکستان داخلی اور خارجی سطح پر کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔
پاکستان کی معیشت میں کراچی کا کردار اہم تھا، ہے اور رہیگا،جسکی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک اہم ترین وجہ قدرتی بندرگاہ کا اس شہر سے منسلک ہونا ہے ۔ یہ بندرگاہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا کیلئے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ گزشتہ ادوار میں جو حالات کراچی کے رہے ہیں بہت ساری صنعتیں کراچی سے دیگر شہروں میں منتقل ہوگئیں اور جو صنعتکار اور سرمایہ دار ملک سے باہر جاسکتے تھے وہ کراچی چھوڑ کر اپنا پیسہ کسی اور ملک لے گئے مگر بندرگاہ ایک ایسا قدرت کا تحفہ یا انعام ہے جو کوئی کہیں نہیں لے کر جاسکتالیکن نعمتوں کی ناقدری اور نا شکرا پن نعمتوں کو روکنے کا باعث بن جاتی ہے (جیسا کہ من و سلوی کا واقع ہے)۔
۹ نومبر کی تاریخ ہر پاکستانی کیلئے بہت اہم ہے کیونکہ اس دن شاعر مشرق اور مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر صاحب کی شاعری نے بر صغیر کے مسلمانوں کی ذہنی نشونما میں اہم کردار ادا کیا ، آپ نے ان رندھے ہوئے لوگوں کی سوچوں کواڑنے کیلئے پردیئے اور شاہین بننے کا ہنر سکھایا ۔۹ نومبر کو اللہ نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی شکل میں اس خواب کو پیدا کیا تھا جس نے تعبیر بننا تھا پہلے خواب بتاکر جو آپ نے مسلمانوں کیلئے بر صغیر میں ایک الگ خطہ زمین کی جانب رہنمائی کی، جہاں مسلمان مکمل آزادی کیساتھ اپنے عقائد اور ثقافت کے زندگی بسر کرسکیں۔ یہ وہ خواب تھا جو پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔ پاکستان کسی معجزے سے کم نہیں ہے ، پاکستان کیلئے چلنے والی تحریک کا شروع سے احاطہ کیجئے تو معجزے کا لفظ واضح ہوتا چلا جائے گا۔ کرہ ارض پر مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ پناہ گاہ یثرب تھی جس پر غور کیا جائے تو وہ ریاست بھی اللہ کی جانب سے بطور تحفہ تھی ۔ بلکل اسی طرح تحریک پاکستان سے پہلے اور بعد کے حالات لوگوں کا مسلم لیگ پر اعتماد اور علامہ اقبال کا خواب (جسے کسی کا دیوانے کا خواب نا سمجھنا) اور خواب کی تعبیر کیلئے قائد اعظم کی انتھک لگن اور محنت سے پاکستان کا حصول ۔ آج سوچنے پر لگتا ہے یہ سب طے شدہ تھا اور طے شدہ عمل سے گزر کر ہی منزل پر پہنچا جاتا ہے۔
۹ نومبر جہاں پاکستان کے وجود میں آنے کیلئے اہم ہے اسی طرح ۹ نومبر ۲۰۱۷ ایک اور خواب کی امین بنی جب پاکستان کے معاشی حب کراچی کی بقاء کیلئے تاریخی دن ثابت ہونے جا رہا ہے ۔ یہ اہم ترین دن اور اہم ہونے والا ہے جب کراچی شہر میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم مفاہمتی عمل دیکھنے میں آیا، جب پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے الحاق کا باقاعدہ اعلان کیااور شہر میں بڑہتی ہوئی خوف کی آب و ہوا کا خاتمہ کیا۔ اس بات سے قطعی نظر کہ پہل کس نے کی مگر جس نے بھی اس کا یہ قدم لائق تحسین ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے اس عمل کو سیاسی حلقوں میں قابل ستائش عمل قرار دیا جانا چاہئے اورشہر کراچی کے مفاد جن کا تعلق بلواسطہ پاکستان کے مفاد سے ہے کی خاطر اس الحاق کو تشکیل دیا۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں ،یہی وہ لوگ ہیں جو عرصہ دراز کراچی پر ایک ساتھ مل کر حکومت کرتے رہے، پھر شخصی اختلاف کی شدت نے انہیں جدا کردیا اب وہ اختلاف شائد یکساں ہوگئے ہیں۔دوسری طرف اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوگیا ہوگا کہ اگر ہم اسی طرح ٹکڑوں میں بٹتے چلے گئے تو ہم پر کوئی اور حاکم بن کر بیٹھ جائے گا یا کراچی کے سیاسی افق پر کوئی نیا ستارہ بن کر چمکنے لگے گا اور ہماری اہمیت آہستہ آہستہ معدوم ہوتی چلی جائے گی اورتاریخ میں برے لفظوں سے یاد کرنے کیلئے رہ جائینگے۔ اسطرح سے دیکھا جائے تو کچھ سیاسی جماعتوں کو تو اس الحاق سے قطعی خوشی نہیں ہوئی ہوگی لیکن پھر وہی بات دہراؤنگا کہ ملک کے وسیع تر مفاد ات کی خاطر اس الحاق کوسرہانا چاہئے اور اس الحاق میں ان لوگوں کو بھی شامل کرلینا چاہئے جو عرصہ دراز سے اسی شخصی اختلاف کے باعث علیحدگی اختیار کئے بیٹھے ہیں ۔ اب جب نئے سرے سے کام شروع کیا جارہا ہے تو گلے شکوے مٹا کر سب ایک دوسرے کو گلے لگالیں۔ اس الحاق نے پاکستان کی سیاست میں مفاہمت کی نہیں راہیں کھول دی ہیں اور سیاستدانوں کو انفرادی سیاست سے ملکی سیاست کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردہا ہے۔
اس مفاہمت سے کسی حد تک جماعت اسلامی اور زیادہ تر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کو دھچکا لگا ہوگا کیونکہ یہ یقیناًمتحدہ قومی موومنٹ کی بکھرتے ہوئے شیرازے میں اپنا فائدہ دیکھ رہے ہونگے بلکہ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے رہنما تو اس بات کاعندیہ بھی دے چکے ہیں کے آنے والے انتخابات میں انکی جماعت کراچی سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہوجائیگی۔ لیکن اس بدلتی ہوئی صورتحال سے انہیں نئے سرے سے حکمت عملی مرتب دینی پڑے گی ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس الحاق میں سابق صدر پرویز مشرف صاحب اہم ذمہ داری نبہاتے دیکھائی دے رہے ہیں اور ایسا ہی کچھ سماجی میڈیا کی بھی زینت بنا ہوا ہے، مشرف صاحب کو عملی سیاست میں قدم رکھنے کا اس سے بہتر موقع شائد پھر کبھی نا مل سکے۔ گوکہ سماجی میڈیا پر اس الحاق پر شدید تنقید کی جارہی ہے ۔
عرصہ دراز سے پسنے والا طبقہ(اپنے کئے کی وجہ سے) سکھ کا سانس لینے کیلئے بے تاب ہے ، حکومت کو چاہئے کہ وہ اب ایسی کسی غلطی کی مرتکب ناہو یا پھر کوئی ایسا خلاء ناپیدا ہونے دے جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہر اس طبقے کو جس کا ماضی میں استحصال ہوتا رہا ہے بھرپور ازالہ کرے اور خوف ذدہ ماحول سے نجات دلائے جیسا کہ حکومتی اراکین اس ازالے کا تذکرہ اپنی تقریروں میں کرتے رہتے ہیں۔ اس نئے الحاق کی اولین ترجیح کراچی میں تعلیمی نظام میں سے کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے باہر نکالنا ہے اور نئی نسل کو قلم اور کاغذ سے محبت کرنے کا درس دینا ہے ۔ سیاست کو اخلاقیات کا سبق پڑھانا ہے اسلحے کو سیاست میں کسی قسم کی گنجائش نا دینے کا حتمی فیصلہ کرنا ہے ۔ عوامی نمائندوں کو عوام کی خدمت کے لئے تیار کرنا ہے ۔ ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے نا کہ انہیں دھرانا ہے ۔ ایک نئے مستقبل کی داغ بیل ڈالنی ہے ۔ مفاہمت کوملکی مفادات کی خاطر مسلسل فروغ دینا ہے اور اپنے درمیان کالی بھیڑوں کیلئے جگہ نہیں چھوڑنی۔ شہرِکراچی کو اقبال کے خواب جیسا بنانا ہے اور قائد اعظم کی محنتوں کا امین بنانا ہے ۔۹ نومبر کو اور یادگار بنانا ہے ۔ ہم اگر گزرے ہوئے کل میں بیٹھے رہینگے تو ہمارا آج تو آج بلکہ آنے والا کل بھی تاریک ہوتا چلا جائے گا۔ دنیا کسی کاا نتظار نہیں کرتی بلکہ یہ تو خالی جگہ دیکھ کر فائدہ اٹھانے والوں سے بھری پڑی ہے ۔ اگر مصطفی کمال اور فاروق ستار کے عزائم نیک ہیں اور ملکی مفاد میں بہتری کیلئے ہیں تو پھر قدرت بھی انکا ساتھ دیگی اور آنے والے دنوں میں انکے لئے مثبت پیغامات لے کر آئے گی۔ ۹ نومبر کو اقبال ڈے کی چھٹی ختم کرنے والے اس دن کی اہمیت میں کمی کر نہیں پائے تھے کہ اس اہم ترین الحاق نے ۹ نومبر کی اہمیت کوچار چاند لگا دیئے۔