تحریر : جواد اکرم چند دن پہلے حکومت کی طرف سے قومی ائیرلائن، پاکستان انٹرنیشنل ا ئیر لائنز کو 13.6 عرب روپے کے بیل آئوٹ پیکج دینے کے اعلان نے ماضی کے اس عظیم قومی اثاثے کو وقتی سہارا تو دے دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک پی۔آئی۔اے کو قومی خزانے سے عربوں روپے کے حساب سے بیل آوٹ پیکج دئیے جاتے رہیں گے۔پی۔آئی۔اے کا مجموعی خسارہ اب٠٠ ٤ عرب روپے سے تجاوزکرچکا ہے جو کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس وقت پی آئی اے کے زیرِاستعمال کل ٣٨ جہازوں میں سے ٢٤ جہاز دوسری ائیر لائنز سے کرائے پر حاصل کئے ہوئے ہیں۔ مسلسل نقصان کی وجہ سے ائیر لائن جنوری ٢٠١٨ سے نیو یارک (امریکہ) کے لئے اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔پی آ ئی اے کا ماضی جتنا تابناک اور قابل ِفخرتھا، حال اتنا ہی زیادہ دردناک اور مستقبل موجودہ حالات کے تناسب سے اور بھی زیادہ خطرناک دکھائی دے رہا ہے۔
ماضی کے جھروکوںمیں جاکر پی آئی اے کو دیکھا جائے تو بہت سے لوگوں کے لئے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا کی وہ عظیم ائیر لائن تھی جس نے ١٩٦٠ سے ١٩٨٠ کی دھائی تک دنیا کی فضائوں پر راج کیا ہے۔ ائیرمارشل نورخان کی سربراہی میں پی آئی اے نے دنیا کی بہترین ائیر لائن ہونے کا اعزاز حاصل کئے رکھا۔ ائیرمارشل نورخان کے بعد ائیر مارشل اصغر خان اور دیگر آنے والے سربراہان نے بھی پی آئی اے کے ترقی کے سفر کو جاری رکھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب موجودہ زمانے کی نمبر ون ائیرلائین ایمیریٹس ائیر لائنز نے اپنے قیام کے لئے پی آئی اے سے مدد لی۔ پی آئی اے نے نہ صرف ایمیریٹس ائیر لائنز کے عملے کوتربیت دی بلکہ اس وقت کے دنیا کے بہترین جہاز انہیں کرائے پر بھی دئے۔ایمیریٹس ائیرلائن کے علاوہ اور بھی کئی بڑی ائیرلائنز پی آئی اے کے تعاون سے قائم ہوئیں۔ نیو یارک میں پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کے بارے میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کتاب دی آرٹ آف ڈیل میں لکھا ہے کہ میںاس ہوٹل کو خریدنا چاہتا تھالیکن پی آئی اے نے اسے مجھ سے چھین لیا اور اس بات کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔
غورطلب بات یہ ہے کہ آخر کن وجوہات نے اس عظیم ائیرلائن کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص ،حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی میں اعتراف کر چکے ہیں کہ اس وقت پی آئی اے کے پاس ١٤٥٠٠کا عملہ ہے جو کہ عالمی ہوابازی کے اصولوں کے مطابق ١٢٥ طیاروں کے لئے کافی ہے جبکہ پی آئی اے کے پاس اپنے اور لیز پر لئے گئے کل ملا کر ٣٨ طیارے ہیں۔اب اگر ١٢٥ جہازوں کے لئے کافی عملہ صرف ٣٨ جہازوں کو بھی نہیں سنبھال سکتا تو یہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور نیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اب اگرموجودہ حکومتی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں قطبیت نمایاں ہے۔ حکومت یا تو بالکل ہی نجکاری کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے یا پھر نجکاری کے خلاف پی آئی اے کے عملے کی بھرپور مزاحمت کی صورت میں عربوں روپے بیل آوٹ پیکج کی صورت میں بار بار فراہم کرتی نظر آتی ہے، جبکہ اصلاحات کا عنصر نہایت کم اور غیر موزوں نظر آتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پی آئی اے سے طیاروں کی تعداد کے تناسب سے فالتو عملہ ہٹا لیا جائے۔اگر ان سرکاری ملازمین کو ہٹایا نہیں جا سکتا توکم از کم مناسب قانون سازی کر کے ان کو دوسرے سرکاری محکموں میں منتقل کر دیا جائے۔پی آئی اے میں صرف قابل اور دیانت دار لوگوں کو رہنے دیا جائے۔
موجودہ وقت پی آئی اے کے لئے کڑا ضرور ہے لیکن یہ اس کے لئے خوش قسمتی بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ موجودہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی شعبہ ہوابازی سے دلی لگائو رکھتے ہیں۔وہ ایک نجی ائیر لائن کے مالک بھی ہیں جو کہ ان کی انتھک محنت سے عرصہ دراز سے کامیابی کے سفر پر رواںدواں ہے۔ایسے میں اگر وزیراعظم پاکستان اپنی خصوصی کوششوں سے اور مصلحتوں کو بالائے طا ق رکھتے ہوئے پی آئی اے کی بقاء کی خاطر کچھ سخت فیصلے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کچھ شک نہیں کہ پی آئی اے دوبارہ دنیا کی بہترئن ائیرلائنزکی صف میں شامل ہو سکتی ہے۔