قارئین سب سے پہلے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی چیز بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے۔ جیسے ہم ایک چھری کی ہی مثال لے لیتے ہیں جو ضروریات زندگی میں اپنا اہم مقام رکھتی ہے کیونکہ چھری کانٹوں سے ہم پھل اور سبزیاں کاٹتے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے لیے ایک مثبت استعمال ہے۔ مگر اسی چھری کا منفی استعمال کرتے ہوئے انسانی زندگی کو چند لمحوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ پاکستان میں تو آئے روز لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ یعنی چھری چاقو سے انسان کی جان لینا ایک منفی فعل ہے تو کیااس سے ہونے والے قتل و غارت کو روکنے کے لیے اس کے استعمال اور بنانے پر ہی پابندی لگا دینی چاہیے؟ایک باشعور ذہن رکھنے والا شخص کبھی بھی یہ نہیں کہے گا کہ اس پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے۔
کہ پابندی لگانے سے قتل و غارت نہیں رکے گی بس لوگوں کو اس کا مثبت استعمال سکھانے کی ضرورت ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی بھی چیز کی اچھائی یا برائی کا دارومدار اُس کے استعمال پر منحصر ہے کہ آپ اس کا استعمال مثبت کرتے ہیں یا منفی۔ اسی طرح اگر چھری کانٹے کی جگہ ہم ویڈیو شیئرنگ کی سماجی ویب سائٹ یو ٹیوب کو ہی لے لیں جو کہ پچھلے کئی عرصے سے پاکستان میں بند ہے جس کی وجہ 13 منٹ کی وہ گستاخانہ ویڈیو بنی جو ایک امریکی باشندے نے بنا کر Innocent Of Islamکے نام سے یو ٹیوب پر ڈال دی۔
جس کے بعد مسلم اکثرت میں کھلبلی مچ گئی کہ اب یو ٹیوب کو بند کیا جائے۔ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں میں سے کچھ کو زیادہ ہی جوش آگیا اور ساتھ ہی اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے 21ستمبر کو یوم عشق رسول منانے کا اعلان کر دیا اور پھر ان جوشیلے مسلمانوں نے کیسے یوم عشق رسول کو مناتے ہوئے ملک کی سرکاری و نجی املاک کو جلایا اور لوٹ مار بھی کی۔
Ishaq Rasool (SAW) Day
اسی دن 16 مسلمان بھائیوں کو انہی جوشیلے لوگوں نے قتل کر دیا جو یوم عشق رسول منانے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور اسی طرح کے لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں یوٹیوب ہمیشہ کے لیے بند رہے کیونکہ شائدان لوگوں کو یوٹیوب کا مثبت استعمال نہیں آتا۔ ہم تمام مسلمان عاشقان رسول بنے پھرتے ہیں مگر دیا نتداری ہمارے اندر ہے نہیں ایک سروے کے مطابق پاکستان کے تمام لوگوں میں سے صرف 10 فیصد وہ لوگ ہیں۔
جنہیں سڑک پر چلتے کسی کا بٹوہ(Wallet)مل جائے تو وہ متعلقہ مالک کو واپس کر دیتے ہیں مگر اس کے علاوہ وہ90 فیصد مسلمان جویوم عشق رسول تو مناتے ہیں مگر اس طرح کی دیانتداری کرنے سے کیونکر کتراتے ہیں روزنامہ امت کراچی میں 12 جون کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یوٹیوب کی بندش کی اصل وجہ توہین آمیز مواد نہیں ہے۔ سابقہ حکومت نے تھری جی اسپکٹرم لائسنسنگ کے لیے رشوت نہ دینے پر بند کیا۔
نو منتخب وزیر مملکت انفار میشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے یوٹیوب کے بلاک ہونے اور 3 اسپکٹرم لائسنسنگ کی تاخیر کا نوٹس بھی لے لیا۔ واضح رہے کہ یوٹیوب کو پاکستان میں 17 ستمبر 2012 کو بلاک کیا گیا تھا۔ یوٹیوب مشہور زمانہ سرچ انجن گوگل کا ذیلی ادارہ ہے۔ 26 دسمبر 2012 کو ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل نے 3Gلائسنس کے لیے پی ٹی اے میں مشیر کی تقرری کی تجویز دی تھی جبکہ پی ٹی سی ایل کے مختلف مواقع پر ہونے والے معاہدوں کی کاپیاں بھی طلب کی تھیں۔
تاہم وزارت نجکاری اور پی ٹی سی ایل نے وہ دستاویزات ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو فراہم نہیں کیں تھی۔ اتصلات نے در اصل 800ملین ڈالر کی حکومت پاکستان کو ادائیگی نہیں کی تھی کیونکہ اتصلات کمپنی چاہتی تھی کہ 3G پر صرف اُسی کی اجارہ داری ہو۔اس لیے اس نے حکومت پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ 2G ,3Gاور4Gاسپکٹرم لائسنسوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔اس ٹیکنالوجی کے پاکستان میں آنے سے پہلے اعلی سطح کی قانون سازی ضروری ہے۔
اس لیے کہ موبائل فون ٹیکنالوجی نے لوگوں کی پرائیویسی ختم کر دی ہے۔اس طرح انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایسی قانون سازی کی جائے جس سے غیر اسلامی، توہین آمیز اور فحش مواد کو روکا جا سکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یوٹیوب کو دیکھنے کے لیے دوسرے نا جائز طریقے دریافت کر لیے گئے ہیں۔ مشہور برطانوی جریدے اکنامسٹ نے دعوی کیا ہے کہ حکومتوں سے زیادہ معلومات گوگل کے پاس ہے۔