ڈیرہ اسماعیل خان (سیدتوقیرزیدی ) پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت ڈالر کی بجائے مقامی کرنسیوں میں کی جائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف دونوں ملکوں میں تجارت بڑھے گی بلکہ کرنسیوں کی قدر میں بھی اضافہ ہوگا ایران کے صدر حسن روحانی ماہ رواں کی 25 تاریخ کو دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔
سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس دورے کی بڑی اہمیت ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم میں اضافے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سمگلنگ کی شکل میں جو تجارت ہوتی ہے اس کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے اور سمگلنگ کی بجائے باقاعدہ تجارت شروع ہوسکتی ہے۔ہمارے نمائندے کے ساتھ تاجروں خان محمد ، بنارس چوہدری شوکت خان ، شرافت خان اور دیگر نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پابندیوں کے دنوں میں ایرانی تیل سمیت بہت سی اشیاء سمگل ہوکر پاکستان کی مارکیٹ میں آتی تھیں۔ اسی طرح پاکستان سے کنو سمگل ہوکر ایران میں فروخت ہوتے تھے۔ اس تجارت کو اگر باقاعدہ کر دیا جائے تو دونوں ملکوں کو اس کا بہت فائدہ ہوسکتا ہے اور تجارت کے حجم میں بھی بآسانی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ایرانی صدر کے دورے کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنے پر بھی لازماً بات چیت ہوگی جو دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑا پراجیکٹ ہے۔ ایرانی سرحد سے پاکستان میں نواب شاہ تک اس گیس پائپ لائن کی تعمیر ہونی ہے لیکن ایران پر پابندیوں کے دور میں پاکستان کو ڈرایا جاتا تھا یا وہ خود ہی ڈرا سہما ہوا تھا کہ اگر پائپ لائن بچھائی گئی تو عالمی پابندیاں پاکستان پر بھی لاگو ہوجائیں گی، امریکہ بھی پاکستان کو ان پابندیوں سے ڈراتا رہتا تھا۔ پابندیوں کا تو شاید بہانہ تھا، امریکہ یہ چاہتا تھا کہ پاکستان ایران سے گیس نہ خریدے۔ حالانکہ عین پابندیوں کے دوران بھارت ایران سے ادھار تیل خریدتا رہا، چونکہ بنکنگ سیکٹر پابندیوں کے زد میں تھا اس لئے ایران غالباً بارٹر سسٹم کے تحت تیل کی قیمت وصول کرتا رہا، لیکن بھارت کو کسی عالمی طاقت نے نہیں ڈرایا کہ اس پر بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔
بھارت پہلے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں بھی شامل تھا، لیکن بعد میں اس سے الگ ہوگیا۔ پائپ لائن کی تعمیر میں تاخیر کرنے والے ملک کو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے، اس لحاظ سے پاکستان شاید جرمانے کی زد میں بھی آیا لیکن خیال ہے کہ ایرانی صدر اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لئے جرمانے وغیرہ کی شق کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پائپ لائن پابندیوں کی وجہ سے تعمیر نہیں ہوسکتی تھی، اس لئے جرمانہ عائد نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع کے مطابق توقع ہے کہ ایرانی صدر اس سلسلے میں پیش رفت کریں گے۔ ایران میں بعض ایسی صنعتیں لگی ہوئی ہیں جن کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان حاصل کرسکتا ہے۔ تجارت بڑھانے کے لئے سب سے اہم ذریعہ اسلام آباد، تہران اور استنبول کے درمیان چلنے والی گڈز ٹرین تھی جو اب بند ہوچکی ہے۔
اس راستے سے ترکی تک پاکستانی مال بآسانی پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ترکی کے ساتھ بھی تجارت میں اضافے کی کوششیں جاری ہیں، اس لئے یہ گڈز ٹرین جتنی جلد ممکن ہو، بحال کر دی جائے۔ پاکستان میں چاول اس وقت وافر ہے، اسی طرح گندم کی پچھلے دو سال کی فصلیں کی زائد پیداوار بھی گوداموں میں موجود ہیں اور اگلے ماہ نئی فصل بھی آنے والی ہے، اس لئے ایران کو گندم یا آٹے کی فروخت کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ گندم کا آٹا ایران کو ایکسپورٹ کیا جائے۔
اس طرح پاکستان کی وہ فلور ملیں بھی چل پڑیں گی جو اس وقت بند پڑی ہیں، فلور ملنگ ایسوسی ایشن کا بھی مطالبہ یہ ہے کہ آٹے کی برآمد کی اجازت دی جائے، افغانستان پاکستانی آٹے کی ایک بڑی منڈی تھی، جس پر اب کئی دوسرے ملک قابض ہوچکے ہیں، اگر ایران میں آٹے کی نئی مارکیٹ تلاش کی جائے تو افغانستان کی جو مارکیٹ پاکستان سے چھینی گئی ہے اس کی کمی بھی دور ہوسکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بنکنگ سیکٹر کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تجارت کے لئے ھنڈی وغیرہ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اسلام آباد میں مقیم ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ پاک ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس جلد ہونے کا امکان ہے اس میں وزیر خزانہ کی طرف سے یہ تجویز رکھی جانی چاہئے۔