اسلام آباد (جیوڈیسک) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ بدھ کو پاکستان کا ایک روزہ دورہ کیا، جس میں خاص طور پر گزشتہ ہفتے شدت پسندوں کے ایک حملے میں ایران کے 10 سرحدی محافظوں کی ہلاکت سے متعلق معاملات اور دو طرفہ سرحد پر سلامتی کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
ایرانی وفد کی پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے علاوہ سرحدی فورسز کے درمیان روابط کے لیے ’ہاٹ لائن‘ کو بحال کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کیا۔
جواد ظریف کے ہمراہ پاکستان آنے والے 12 رکنی اعلیٰ سطحی وفد میں ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف بریگیڈئیر جنرل غلام رضا محرابی، سرحدی پوليس فورس كے سربراہ بريگيڈيئر جنرل قاسم رضائی اور پاكستانی سرحد سے ملحقہ ايران کے صوبے سيستان و بلوچستان كے گورنر جنرل علی اوسط ہاشمی شامل تھے۔
ایران کی طرف سے دوطرفہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں كے خلاف موثر کارروائی اور خاص طور پر ایران کے سرحدی علاقے میں حالیہ حملے میں ملوث دہشت گرد عناصر كا تعاقب اور ان كو كيفر كردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
گزشتہ ہفتے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں نے حملہ کر کے ایران کے 10 سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ حملہ شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ نے کیا اور حملہ آور کارروائی کے بعد پاکستانی حدود کی جانب فرار ہو گئے۔
پاکستان کی طرف سے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ شدت پسندوں نے یہ کارروائی ایرانی حدود میں کی۔
ایران کی طرف سے اس حملے کے فوراً بعد بھی پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ اس حملے میں ملوث شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
تجزیہ کار بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) سعد محمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایران پاکستان میں موجود سنی شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔
’’ایران کے ساتھ جو ہماری (سرحد ہے) اس کے پار اس میں زیادہ سنی انتہا پسند گروپ اس میں جنداللہ گروپ ایک مرکزی گروپ ہے(جند اللہ) کے ایک راہنما عبدالمالک ریگی جس کو ایران نے پھانسی دے کر ختم کر دیا، لیکن اس کے ساتھ باقی سنی گروپ لشکر جنھگوی وغیرہ ہیں ان کے ساتھ کافی گہرے مراسم رکھتے ہیں اور بلوچستان میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہے کوئٹہ اور سبی اور شکار پور میں جو حملے ہوئے ہیں (لشکر جھنگوی اُن میں ملوث تھی) لشکر جھنگوی کا بلوچستان میں بھی کافی اثر و رسوخ ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعاون کرنا ہو گا۔
’’پاکستان کو یہ مکمل کوشش کرنی چاہیئے کہ پاکستان کا علاقہ (کسی ملک کے خلاف) استعمال نا ہو، لیکن بلوچستان میں بہت مشکل ہے یہ بہت وسیع علاقہ ہے اور ہر جگہ (سیکورٹی فورسز کو ) نہیں رکھ سکتے ہیں۔‘‘
وزارت داخلہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے درمیان ملاقات میں منشیات کی اسمگلنگ، سرحدی علاقوں میں غیرقانونی آمد و رفت اور دہشتگرد کاروائیوں کو دونوں ممالک کے لیے مشترکہ تشویش قرار دیتے ہوئے، ایسے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ سرحدی کمیشن اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا گیا۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور بعد ازاں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ ملاقات کی۔
وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں بھی ایران کے وزیر خارجہ کی طرف سے سرحدی مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق اس ملاقات میں دوطرفہ تجارت اور اقتصادی شعبے میں تعاون کو وسعت دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان اور ایران کے قریبی تعلقات ہیں اور حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے بھی ایران کا دورہ کیا تھا۔