پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو مروجہ جمہوری جد وجہد سے مذہب کے نام سے وجود میں آیا ہے تحریک پاکستان کے قائد محمد علی جناح نے پاکستان بناتے وقت جو دو قومی نظریہ پاکستان پیش کیا تھا جو نظریہ پاکستان ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا ”ہندو اور مسلمان دو جدا مذہبی تصورات، سماجی روایات اور ادبیات رکھتی ہیں۔ نہ وہ باہمی شادیاں کرتے ہیں، نہ ایک جگہ کھانا کھاتے ہیں۔
بلاشبہ وہ دو مختلف جدا گانہ تہذیبوں سے پیوست ہیں، جس کی بنیاد میں متصادم تصورات اور زاویہ فکر ہیں۔ زندگی سے متعلق اُن کی سوچیں جدا ہیں ۔یہ با لکل واضح امر ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے تحریک لیتے ہیں۔اُن کی رزمیہ کہانیاںجدا ہیں، اُن کے ہیروز اور داستانیں جدا ہیں۔ عموماً ایک کے ہیرو دوسرے کا ولن ہے اسی طرح اُن کی فتوحات اور شکستیں ایک دوسرے سے گڈمڈ ہیں”۔ پاکستان بننے کے بعد آج تک پاکستان کی خاموش اکثریت اس دو قومی نظریے پر قائم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہے گی انشاء اللہ۔ بیرونی نظریات ٹھونسنے والے ممالک ،حکومت کے مراعات یافتہ لوگ،روشن خیال، مذہب بیزار، بیرون دنیاکی شیطانی تہذیب سے متاثر مقتدر حلقے اورآزاد خیال مقامی لوگ اپنی من مانیاں کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی پٹڑی سے اتارنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کوشش ہمارے ڈکٹیٹر مشرف نے بھی اپنے دور حکومت میں پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف سیکولرزم کے پرچار کے لیے روشن خیال پاکستان((enlightened pakistan کی بے سود کوشش شروع کی تھی اور ترکی کے کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تھا۔
Journalism
بھارت کے کسی مشہور صحافی نے ایک انٹرویو کے دوران ان کو اس کے انجام سے با خبر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی معاشرہ آپ کو راستے سے ہٹا دے گا تو مشرف نے کہا تھا کہ میں اس کے انجام سے باخبر ہوں اور تیار بھی ہوں ڈکٹیٹر مشرف اپنے اقتدار کے دوران اپنی انتہاہی کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا اور اب پاکستانی معاشرے میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس پر اپنے ہی معاشرے کا خوف تاری ہے اپنے پرائیویٹ سیکورٹی اسکوڈاور حکومت کی ہزاروں سیکورٹی افراد کی تعیناتی کے باوجود وہ اپنی کمین گاہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ ہے اسلامی تشخص اور نظریہ پاکستان سے انحراف کا نتیجہ!کیا پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ جیو اور جنگ اس انجام سے بل لکل بے خبر ہے کہ معاشرہ اِس کا کیا انجام کرے گا؟کیا امن کی آشااور جیو کہانیاں چلا کر پاکستان کو اپنے اسلامی نظریے سے ہٹا سکتا ہے؟ ہندوستان کے فلمی ایکٹروں کی برتھ ڈے ان کی زندگی پر گھنٹوں پروگرام چلا کر فعاشی کے ذریعے پاکستانی معاشرے کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کی بھونڈی کوششیں کر کے وہ کس کی خدمت کرتا رہا ہے؟ کیا پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کے اور کھسے پھٹے سیکولر نظام کو رائج کرنے کے لیے جیو پر اپنے اینکرز سے جعلی سروے کروانے اور عوام کی رائے کو سازش سے تبدیل کر کے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں جیو پر ایک سروے پروگرام کا ذکر ملک کے مشہور دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف جناب طارق جان صاحب نے اپنی کتاب (سیکولرزم مباحث اور مغالطے ) میں کیا ہے جسے ہم نے اپنے کالم ”سیکولرزم مباحث اور مغالطے طارق جان” جو پاکستان کے متعدد اخبارات میں شائع ہوا تھا میں قارئین کے سامنے پیش کیا تھا یہ ہم پھر پیش کر رہے ہیں تاکہ جیو جنگ کی پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کی بھونڈی کوشش سامنے آ سکے”ملک کے ایک کثیرا لاشاعتی اخبار جس کے بانی ہندوستان کے مسلمانوں کی اس ہی اخبار کے ذریعے پشتی بانی کیا کرتے تھے اب ان کی اولاد جو دولت کی ہوس میں مبتلا ہو کر پاکستان کی جڑوں پر تیشہ چلانے میں لگ گئی ہے۔
اس کی چلائی ہوئی امن کی آشاہ ،اس کے ٹی وی پر ہندوستانی ثقافت ،بے حیائی کا رواج، برہنہ فوٹو بنانے والی اداکارہ کے انٹر ویو اور قراداد پاکستان کے خلاف اپنے ہی کروائے گئے سروے کے نتائج کو غلط جھوٹی شرانگیز سرخی لگا کر پیش کرنا نہ تو صحافتی انصاف ہے بلکہ بہت ہی بڑا مغالطہ بھی ہے جس پر جتنی بھی گرفت کی جائے کم ہے” اب پھر اسی روش پر عمل کرتے ہوئے اپنے ایک مشہور اینکر جناب حامد میر پر قاتلانہ حملے کا جواز بنا کر آٹھ گھنٹے تک بغیر تصدیق کے قوم کے ایک نیایت اہم خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر لگا کر اس کے خلاف پروپگنڈہ کیا جو در اصل پاکستان کے خلاف پروپگنڈہ ہے۔
Geo Jang Group
اس سے ہمارے ازلی دشمن بھارت اور امریکا کو خوش کیا اس پر پورے ملک میں اس کے خلاف رائے قائم ہوئی ہے کہ جیو پر پابندی لگائی جائے ملک کا پرنٹ اورا لیکٹرونک میڈیا اس کے خلاف ہو گیا چاہیے تو یہ تھا کہ جیو جنگ گروپ اس ردعمل کو دیکھ کر ہوش میں آ جاتے اور اپنے اس ملک دشمن رویے کی اصلاح کرتے بلکہ اب بھی آئی ایس آئی کے خلاف زور شور سے پھر پور مہم چلائی ہوئی ہے جس میں انشاء اللہ وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ہمارے دشمن ملک بھارت نے ہمارے وزیر اعظم کو اس کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے سے منع کیا ہمارے دوست نما دشمن امریکا نے بھی اس کی حمایت کی مگر وہ اس بات کو بُھو ل گیا ہے کہ ڈکٹیٹرمشرف کو بھی بھارت اور امریکا بلکہ ساری دنیا کی حمایت حاصل تھی کیا وہ حمایت اس کے کچھ بھی کام نہیں آئی؟اب وہ دنیا کے سامنے نشان عبرت بنا ہوا ہے اور اپنی کمین گاہ سے باہر نہیں نکل سکتا کیا جیو جنگ اس انجام کے لیے تیار ہے؟ ہم کبھی بھی یہ خواہش نہیں رکھتے کہ جیو جنگ پر پابندی لگائی جائے بلکہ اس کو پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریہ پاکستان اور ملک کے قوانین کا پابند بنایا جائے تمام وہ لوگ اور ادارے جو اپنے مخصوص نظریات اپنے آقائوں کے ذریعے ہمارے ملک پاکستان پر زبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں ان کو پاکستان کے اسلامی تشخص اور آئین کا پابند بنانا چاہیے اور اگر کوئی اس کے خلاف ہرکت کرتا ہے تو اسے قانوں کے کہٹرے میں لا کر قرار واقعی سزا یا صحیح راستے پر ڈال دینا چاہے۔
کیا دنیا میں کوئی بھی کسی بھی ملک یا ادارے اس ملک کے آئین کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں؟ نہیں یقیناً نہیں کر سکتے! تو مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص آئین کی بھی پابندی کرنا ہو گی نظریہ پاکستان کے حامیوں، خصوصاً نوائے وقت میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر نظامی صاحب کو بھی ایسے لوگوں پرکڑی نظر رکھنے چاہیے اور ان کے فاسد خیالات کی گرفت کرنی چاہیے۔ یہاں تک حامد میر صاحب کا تعلق ہے اللہ ان کو جلد صحت یاب کرے اور وزیر اعظم کے قائم کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان پر حملہ ثابت ہونے کے بعد مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنے چاہے اور انصاف کے سارے تقاضے پورے ہونے چاہیے۔
حامد میر صاحب سے بھی درخواست ہے کہ جاری انکوائری کے باوجود جس طرح انہوں اپنے ایک کالم میں اپنا دفاع کیا ہے اس سے پاکستانی قوم اتفاق نہیں کرتی قوم نے انہیں ایک مقام دیا ہے جس کی وجہ ان کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہونا بھی ہے ان کو بھی قوم کے اسلامی تشخص اور نظریہ پاکستان کے بے لوث سپاہی اور حامی بن جانا چاہیے تاکہ ان سے قوم کی محبت مزید بڑے اور ملک اپنی صحیح سمت میں چلتا رہے اور قومی یکجہتی فروغ پائے۔ اللہ ہمارے ملک کا پاسبان ہو آمین۔