مملکت میں اس وقت صدارتی نظام کی بحث چل رہی ہے۔ بیشتر جماعتو ںکو یہ گمان ہے کہ پاکستان کو اُس نہج پر لے جایا جارہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں پارلیمان نظام سے عوام متنفر ہوجائے اور اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی بھی دوسرے نظام کو من و عن تسلیم کرلیں۔ کیونکہ پاکستان میں صدارتی ، پارلیمانی اور آمرانہ نظام آزمایا جاچکا ہے اس لئے سیاسی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ یا تو کھربوں روپے خرچ ہونے والی اس پارلیمانی نظام کو قبول کرکے مراعات لیتے رہیں۔ کیونکہ پارلیمان سے تو عوام کو فائدہ نہیں پہنچ رہا اس لئے ذاتی رائے تو یہی ہے کہ صدارتی نظام پر بحث مباحثہ و قیاس آرائیاں کرنے کے بجائے نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہیں۔صدارتی نظام میں ایک بڑی عجیب نکتہ لگا دیا ہے ۔” اسلامک صدارتی نظام” ۔۔ یہ کنگ میکرزغضب کے آئیڈیا لاتے ہیں ۔ اسلامی جمہوری نظام تو اب اسلامک صدارتی نظام۔ یعنی ہم اسلام کے نام پر جب چاہیں اپنی مرضی کا فیصلہ کروالیں۔ جمہوری جماعتوں میں تو خود نام کی جمہوریت نہیں ، فرد واحد فیصلے کرتا ہے ۔ کوئی لیڈر کے فیصلے سے روگردانی کرے تو اُس کی بنیادی رکنیت ہی ختم کردی جا تی ہے۔ خیر یہ تو جمہوری جماعتوں کا اپنا ضابطہ ہے ۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جمہوریت کے نام پر جتنی جماعتیں پاکستان میں ہیں ۔ ان میں بندے گنے جاتے ہیں۔جمہوریت کی کوئی روح موجود نہیں۔
امریکا میں صدارتی نظام نافذ ہے ۔ اس نے پوری دنیا کو سر پر اٹھایا ہوا ہے لیکن امریکی سینیٹرز سے کبھی نظام بدلنے کی بات نہیں سنی ۔ برطانیہ میں شاہی نظام کے تحت وزارت اعظمیٰ کا پارلیمانی نظام قائم ہے ۔ لیکن وہاں بھی کسی نئے نظام کی بات نہیں پڑھی کہ اب ہمیں بادشاہی نظام کے تحت یہ نظام تبدیل کردینا چاہیے ۔ روس کو دیکھ لیں ۔ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا لیکن روس میں صدارتی نظام اب بھی امریکا کو چیلنج کرتا ہے۔ سعودی عرب ، سمیت تمام عرب ممالک میں با دشاہت کا نظام ہے ۔ دارالسلام برونائی میں شرعی سزائوں کا اطلاق شروع ہوگیا ۔ لیکن وہاں کوئی قیامت نہیں آگئی ۔سب ٹھیک چل رہا ہے ۔ مغرب میں بھونچال نہیں آیا ۔مصر میں پارلیمان نے آئینی ترامیم کرکے صدر عبدل فتح ال سیسی کو 2030تک اقتدار میں رہنے کے لئے راہ ہموار کردی۔اس سے قبل انہیں2022میں اپنی دوسری چار برس کی مدت مکمل کرکے اقتدار سے دستبردار ہونا تھا ۔ صدر سیسی نے2013میں جمہوری صدر محمد مرسی کے خلاف فوج کے تعاون سے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ 2014میں صدر سیسی نے97فیصد ووٹ لے کر اقتدار میں آئے تھے ۔ ممکنہ حریفوں نے حصہ نہیںلیا تھا یا پھر گرفتار تھے۔2014کے ریفرنڈم کے مطابق مصری صدر کو چار برس کے منتخب کیا جاتا ہے ۔ اب آئینی اصلاحات کے بعد2022کی مدت دو برس مزید بڑھ کر2024ہوگئی گرموجودہ صورتحال برقرار رہتی تو موجودہ صدر2030تک بھی اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔
مصر میں فوج کے ساتھ ملکر مملکت کا انتظام و انصرام چلایا جارہا ہے ۔ بڑے انفرا اسٹکچرپروجیکسٹس فوج کے پاس ہیں ، حکومت میں اہم عہدوں پر جرنیل بھی فائز ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستا ن میں مصری طرز حکومت کا ماڈل اپنا لیا جائے تو کئی معاملات میں سول ملٹری معاملات میں تنازعات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔پاکستان کی مسلح ا فواج سے ہر پاکستانی محبت کرتا ہے ۔ لیکن جب آمریت کے بعد فوجی حکمراں اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے ایسے اقدامات کرنا شروع کرتا ہے جو ناقابل قبول ہوتے ہیں تو پھر آمریت کو بُری بن جاتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ صدارتی نظام بُرا نہیں ہے ۔ پارلیمان نظام کو بھی بُرا قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ لیکن یہ دونوں نظام مفادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ پاکستان میں تمام انسانی نظام آزمائے جاچکے ہیں۔ لیکن ریاست مدینہ ( خلافت راشدہ) کو کسی اسلامی ملک نے بھی نافذ نہیں کیا ۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے یہ ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے اس بارے میں کبھی فیصلہ نہیں ہوسکے گا اس لئے اس کے ممکنہ امکانات پر بھی نکتہ نظر عوام پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامک صدارتی نظام کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا اور اب واقعی اس نظام کی ضرورت ہے۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق عوام کی برین واشنگ کی جا رہی ہے کہ موجودہ پارلیمان نظام کھربوں روپے کھا رہا ہے ، اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ، اشرافیہ ہی اس سے فوائد حاصل کررہے ہیں تو اصولی طور پر یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ میں اسلامی نظام( خلافت راشدہ) کے علاوہ ہر قسم کے نظام کا مخالف ہوں کیونکہ خلافت راشدہ میں امت مسلمہ کے خوابو ں کی” جو ” تعبیر ہے وہ دنیا کے کسی انسانی نظام میں نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس نظا م کو لانے والے دور دور تک کوئی نظر نہیں آتے ۔بلکہ فرقہ واریت کے نام پر لاکھوں انسانوں کی جان بھینٹ چڑھ چکی ہے۔
پاکستان میں اسلامک صدارتی نظام کے لئے مناسب وقت پر حکومت تحلیل کی جاسکتی ہے۔ عبوری حکومت اور ممکنہ طور پر عدلیہ کے حکم پر ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے ۔ یہ پاکستانی آئین ہے، کوئی باہر سے مسلط کردہ نہیں ہے اس لئے خارج از امکان نہیں کہ آئین کے تحت صدارتی نظام کے قیام کے لئے ٹیکنو کریٹ حکومت یا قومی حکومت کی تشکیل کردی جائے۔ لیکن یہاں بات دراصل یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو یہ خدشہ ہے کہ عمران خان صدراتی انتخابات کے تحت 2030تک صدر بننے کی منصوبہ کرچکے ہیں۔سیاسی جماعتوں کو یہ وہم بھی ہے کہ عمران خان اور عسکریہ ملکر ایک ایسا نظام بنا سکتے ہیں جو پاکستانی عوام فوراََ قبول کرلے گی۔تاہم نئے نظام کیلئے معاشی استحکام بہت ضروری ہے ۔ لیکن یہاں عمران کی بدقسمتی آڑے آرہی ہے کہ قرضوںو سود میں ڈوبے ملک کو معاشی خطرات سے باہر نہیں نکال سکے ۔ معاشی پالیسیوں کی ناکامی تو دور کی بات ، ابھی تک حکمراں جماعت کے پاس معاشی پلان بھی موجود نہیں ہے۔ ادھار لے لے کر عمران کا سافٹ امیج بُری طرح متاثر ہوگیا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں عید الفطر کے بعد ممکنہ طور پر حکومت کے خلاف بھرپور تحریک شروع کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہیں۔ ایک برس میں وزیر اعظم کو جتنا قرضہ ملنا تھا وہ مل گیا ۔ اب انہیں عرب اور دوست ممالک سے قرض ملنے کی تمام توقعات ختم ہوچکی ہونگی۔ یورپی ممالک اور امریکا ، پاکستان کی مالی امداد کے لئے جس منصوبے کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ وہ پاکستان کے لئے ممکن نہیں ، کیونکہ چین اتنی سرمایہ کاری کرچکا ہے کہ وہ اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ اگر پاکستان نے چین کو مزید ناراض کیا تو حالات مکمل طور پر بے قابو ہوسکتے ہیں۔ اسلامک صدارتی نظام ایک نئی ٹرک کی بتی ہے جس کے پیچھے عوام کو لگایا جارہا ہے ۔ اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ قیاس آرائیاں کس قدر درست ہیں ۔ اس حوالے سے کہنا قبل ازوقت ممکن نہیں ہے ۔ اراکین پارلیمنٹ کو مشورہ دینا فضول ہے ۔ کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے ، اس کے کھیل کے ماہر ، کرکٹ کے ماہر کے چھکے چھڑادیں گے ۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی کہ جس میں پاکستانی فوج کے جرنیلوں کے حوالے سے عمران خان نے جو کہا تھا اس کے مضمرات سے وہ کبھی بچ نہیں سکتے ۔ بہتر ہے کہ عمران خان اگر کئی بار اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں تو اپنی ٹیم میں تبدیلی کرلیں۔شائد کرامات ہو جائے۔