تحریر: ایم پی خان ادیب قوموں کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ شخصیات ہوتی ہیں، جو معاشرے کے ہر پہلو اور ہر سرگرمی پر عمیق نظریں رکھتی ہیں اور ہمارے لئے نئے راستوں کے انتخاب، ہماری سوچوں کی آبیاری اور زندگی گزارنے کے لئے جوش، ولولہ اور میدن عمل کے انتخاب میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک عظیم ہستی ”جمیل الدین عالی ” بھی تھے۔ جن کی شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ب
ین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر، جنہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید، صحافت، کالم نگاری اوراردوادب کے فروغ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔جمیل الدین عالی جنوری 1926 کو مرزاغالب ومیرتقی میرکے مسکن اورابراہیم ذوق وداغ کے مولداردوادب کے عظیم سکول، دہلی میں پیدا ہوئے اوراس پرمستزادمولودی عبدالحق کی شاگردی ورابن انشااورقدرت اللہ شہاب کی رفاقت تھی اوریہی وہ عوامل تھے، جن کی بدولت مرحوم جمیل الدین عالی ایکسویں صدی کے دوسرے عشرے تک اردوادب پرچھائے رہیں۔ج
میل الدین عالیٰ کے والدین مرزاغالب اورخواجہ میردرد کے خانوادوں میں سے تھے اوریہی فیضان ساری زندگی جمیل الدین عالی کے ساتھ رہا۔پاکستان آنے کے بعدیہاں کے نہ صرف ہوکر رہ گئے بلکہ پاکستان کی مٹی سے محبت کاحق انکے قلم نے بخوبی اداکیاہے۔انکے لکھے ہوئے ملی نغمے آج تک قلب کوگرمانے اورروح کو تڑپانے کے کام آتے ہیں۔”جیوے جیوے پاکستان ” آج تک ہرپاکستانی کی زبان پر ہوتا ہے۔
Poet Jamiluddin Aali
کوئی جمیل الدین عالی کے نام سے واقف ہویانہ ہولیکن انکے لکھے ہوئے نغمے ہرکوئی گاتاہے اوروطن کی مٹی سے محبت کااظہارکرتاہے۔جگ جگ جئے میراپیاراوطن، سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے، ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں،جونام وہی پہچان پاکستان پاکستان اوراتنے بڑے جیون ساگرمیں تونے پاکستان دیا، جیسے شہرہ آفاق ملی نغمے لکھ کر انہوں نے وطن دوستی کاثبوت دیا۔ ان کا تخیل انکی حب الوطنی کاثبوت ہے اوران کی عظمت کاآئنہ دارہے۔بے شک جمیل الدین عالی ہم میں سے نہیں رہیں لیکن انکی شاعری اورنثرکے ایک ایک لفظ میں جمیل الدین عالی کا عکس نظرآتاہے اوراس نے انہیں ابدی زندگی دی ہے۔مختلف ادبی انجمنوں سے وابستہ رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردوسے منسلک رہیں اوراردوزبان وادب کی ترویج اورترقی میں اہم کرداراداکیا۔جمیل الدین عالی نے اپنی زندگی کابہت بڑاحصہ کالم نگاری میں صرف کیا۔
انہوں نے پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات کے لئے کالمز لکھے ، جن کے مجموعے ”دعاکرچلے ” اور ”صداکرچلے” کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔مرحوم جمیل الدین عالی نے اردوادب کے لئے گراں قدرخدمات انجام دیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے انجمن ترقی اردو اوراردوڈکشنری بورڈ کاپلیٹ فارم منتخب کیا۔ مزید پاکستان رائٹرزگلڈکے توسط سے ادیبوں کے لئے خصوصی ایوارڈ زکااجرا بھی انہوں نے کیا تھا۔
پاکستان سے محبت کاثبوت مرحوم جمیل الدین عالی نے صرف اپنی شاعری اورنثرکے ذریعے ادانہیں کیابلکہ عملی زندگی میں بھی ہرلحاظ سے وطن دوستی کاثبوت دیا۔انہوں نے پاکستان کے کئی سرکاری محکموں میں بطورسرکاری آفسر اوربیوروکریٹ رہ کر وطن کی خدمت کی ہے جبکہ 1951میں انہیں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلوبھی منتخب کیاگیاتھا۔جمیل الدین عالی نے زندگی کے ہرشعبے میں طبع آزمائی کی۔ شاعری میں نظمیں، غزلیں ، دوہے اورنثرمیں سفرنامے، مضامین اورکالم نگاری کے ذریعے انہوں نے اردوادب میں بہت بڑاسرمایہ چھوڑاہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاست میں بھی قدم رکھاتھا۔اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اورمتحدہ قومی مومنٹ کے ٹکٹوں پرانتخابات بھی لڑے تھے۔
Jevay Jevay Pakistan
متحدہ قومی مومنٹ کی طرف سے وہ سینٹ کے ممبربھی بنے تھے۔ جمیل الدین عالی کے عظیم اورناقابل فراموش خدمات کے صلے میں ان کو کئی اعزازات سے نوازاگیاتھا، جن میں ستارہ امتیاز، آدم جی ادبی ایوارڈاورکمال فن ایوارڈ شامل ہیں۔ مرحوم جمیل الدین عالی کی زندگی کاچراغ پیرکے روز 23نومبر2015کواس وقت گل ہواجب وہ کراچی کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔
پورے پاکستانی قوم اوراردوادب سے شغف رکھنے والے دنیاکے کسی بھی کونے رہنے والے ہرفردکے لئے جمیل الدین عالی کی موت ایک سانحہ سے کم نہیں۔ ہم ایک عظیم شخصیت ، ایک بہت بڑے نام سے محروم ہوگئے۔ اس صدمے کو بھولنے میں ہمیں صدیاں لگیں گی۔ہردور میں پاکستان کوعزت دلانے والے جمیل الدین عالی آج ہم میں نہیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے اورانہیں عظیم درجات عطافرمائے۔آمین