پاکستان کا جاپان گوجرانوالہ

Gujranwala

Gujranwala

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
امپیریل گزٹ کے مطابق اس شہر کو گجروں نے آباد کیا جو بر صغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں طویل عرصہ تک حکومت کرتے رہے۔بعد میں ایران سے آنے والے شیر زئی جاٹوں نے اس کا نام خانپور سانسی رکھا لیکن یہ نام زندہ نہ رہ پایا۔اسی شہر میں سکھوں نے طویل عرصہ راج کہا سکھوں کا سب سے بڑا لیڈر رنجیت سنگھ بھی یہی پیدا ہوا۔ہری سنگھ نلوہ نے اس زمانے میں نئے گجرانوالہ کی بنیاد رکھی۔میں گجرانوالہ کی پرانی تاریخ میں نہیں جانا چاہتا بس اس شہر سے جڑی یادیں لکھنے کو دل کر آیا۔ایوب دور میں بلدیاتی انتحابات ہوئے شائد یہ انہی دنوں کا قصہ ہے یا بعد کا۔ پرانی بات ہے گجرانوالہ میں بلدیاتی انتحابات کا دور دورہ تھا۔اس شہر میں پیاری شخصیات رہتی ہیں جہاں مولانا ابو دائود صادق،رحمت اللہ نوری۔صوفی جمال اور شیخ عطا محمد اس شہر کے ماتھے کا جھومر ہیں اسی شہر میں پومی بٹ جیسی مخلوق بھی رہتی ہے۔اسے مسجدوں کا شہر بھی کہتے ہیں اس شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اگر ظہر کی اذان بارہ بج کر ایک منٹ پر ہوتی ہے تو یہیں ظہر ساڑھے تین بجے مل سکتی ہے۔

یہاں کے لوگ جانوروں کے تمام سپیر پارٹس بڑے ذوق و شوق سے کھا جاتے ہیں۔بس ایک چیز بچتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بیل کے سینگ اور آنکھیں نہیں کھاتے باقی زبان سے دم تک سب کچھ ہڑپ کر جاتے ہیں فلاں کے پائے فلاں کے چنے کسی کی مچھلی کسی کے بٹیرے کہیں کے چڑے اور کہیں کی دال۔بس یہ شہر تین گھنٹے کھانے کے بعد تین گھنٹے یہ سوچتا ہے کہ کیا کھانا ہے۔یہاں کے لوہار اور کمہار مغلیہ خاندان کی نشانی ہیں کہتے ہیں انگریز نے جب مغلوں سے حکومت چھینی تو ان پر بہت ظلم کیا ڈر کے مارے یہ لوگ اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے آج یہی لوگ اس شہر کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ ہنر مندی کی دنیا میں آئے تو کمال کر دیا ۔ اب تو مغلوں کے ساتھ ساتھ جاٹوں اور گجروں نے بھی ہنر مندی سیکھ لی ہے۔اور تو اور اس شہر نے پاکستان کو آرمی چیف بھی دے دیا ہے۔

اسے پاکستان کا جاپان بھی کہا جاتا ہے ہر گھر میں انڈسٹری کوئی پنکھے کے پر بنا رہا ہے کوئی ڈنڈہ اور کوئی پائے دان موٹر کہیں بنتی ہے اور جالی کسی اور کے پاس پھر یہ ایک کارخانے دار جمع کر کے کسی سے مونو گرام بنوا لیتا ہے نام اس کا چلتا ہے کام کسی اور کا ہوتا ہے۔اس شہر کے لوگ بھی با کمال ہیں۔اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے منافقت نہیں کرتے محبت بھی سر عام اور نفرت بھی بیچ بازار میں۔ اس شہر کی عمارتیں اب پاکستان کا حسن بن گئی ہیں یہاں کا مغل محل کسی تاج محل سے اگر زیادہ اچھا نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔جو اس شہر جائے جی ٹی روڈ پر چن دے قلعے کے قریب واقع اس ہوٹل میں ضرور جائے میرین بھی اچھا ہے مگر عمارت اور اس کی اندرونی تزئین کمال کی ہے۔

Industry Gujranwala

Industry Gujranwala

پچھلے دنوں ایک من چلے نے جناب ڈونلڈ ٹرمپ سے اظہار محبت کرتے ہوئے پیپلز کالونی میں ایک بینر لگا دیا ہماری طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد من چلے ہنسنے لگے حالانکہ ہنسنے کی کیا بات تھی بارک اوبامہ کی اماں کھوکرکی میں کام کرتی رہی ہیں ہو سکتے ڈونلڈ کے ابا پادری کی کوٹھی میں رہ چکے ہوں۔بینر پر نام لکھوانا ان پر ختم ہے ایک بینر یہ بھی دیکھا کہ ہم جناب۔۔۔۔۔کو گٹر کا ڈھکن لگوانے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔بندے کو تول کے بات کرتے ہیں۔دو سوا دو من کا بندہ ان کے نزدیک بندہ ہوتا ہے اسمبلی میں بھی اسے ہی بیجتے ہیں جو چلے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہوں بیٹھے تو کمزور ریکٹر اسکیل کا زلزلہ لے آئے۔کہتے ہیں ایک زمانے میں کوئی شخص کراچی سے گجرانوالہ آیا اسٹیشن پر اترا تو منجھے پر لالہ بشیر صحرائی سائز کے دو چار لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان سے بادب کہا پہلوان جی کیا میں آپ کو تکلیف دے سکتا ہوں جواب آیا اپنا جثہ تو دیکھو تم کیا تکلیف دو گے ہمیں۔کھانا کھانے کی باتیں کرنا ختم ہے گوشت کی جملہ صفات انہیں ازبر یاد ہیں کسی کو بوٹی کے بارے میں بتائیں گے تو لوگوں کے منہ میں پانی بھر آئے گا بکنگ کے وقت ہوٹل والے کو بتائیں گیں بوٹی گول ہو ہڈی کے ساتھ بھی کچھ مقدار ہوں چربی نام کی چیز نہ دیکھوں ۔میرے ایک باھئی ہوٹل لائن سے منسلک ہیں کہتے ہیں پیسے مرضی کے دیتے ہیں اگر کوئی چیز کم ہو جائے تو سالن سے لبھڑی ہوئی پراتوں سے مارتے ہیں۔

پہلوانوں کے اس دیس کی کیا بات کروں ۔ایک پہلوان الیکشن پر کھڑے ہو گئے نام تھا ماں نے نام امین رکھا ہو گا مشہور ہوئے مینا پہلوان کے نام سے چھ فٹ سے نکلتا تھا ود کمر کا گھیرائو ساتھ انچ کے قریب۔بڑے نامی گرامی پہلوان تھے انہیں تقریر کرنے سے بڑا ڈر لگتا تھا،سٹیج سیکریٹری نے بڑے القابات سے نوازا لئو جی اب آپ کے سامنے شیر پاکستان مینا پہلوان فخر پنجاب و گجرانوالہ مینا پہلوان تقریر کریں گے۔بوسکی کا کرتا اور بوسکی کے ہی لاچے میں جناب مینا سٹیج کی طرف برھے ٹانگیں کانپ رہیں تھیں سٹیج پر پڑی دری کے ساتھ زری کھسہ کیا اٹکا پہلوان گرتے گرتے بچے۔لوگوں نے سنبھالا دیا نشان شیر تھا پنجرے میں زندہ شیر بھی بند تھا۔لئو بیبیو تئے پینو اتنا کہنا ہی تھا کہ جلسہ گاہ قہقہوں سے گونج اٹھی۔مینے پہلوان کی آواز زنانہ سے بھی زنانہ نکلی۔جثہ اور آواز کا کوئی میل نہیں تھا۔اسی شہر میںکے ایک دلدار پرویز بھٹی ہوا کرتے تھے خود کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں بندہ نائجیریا کا ہے مگر پنجابی اچھی بولتا ہے۔

بھٹی صاحب کے ساتھ تین سال ٹرین کا سفر اکٹھا کیا وہ ایک پنجابی ٹاک شو بھی کیا کرتے تھے ایک بار کہنے لگے لئو وئی میرے بھرائو افریقہ کے ایک ملک میں سات آدمی بھوک سے مر گئے اور گجرانوالہ میں اتنے ہی آدمی زیادہ کھا کر مر گئے۔یہ سچ ہے کہ گجرانوالہ سے آئی ہوئی بارات کا ریٹ ڈبل ہوتا ہے۔یہاں کے باشندے کھانے کو زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر کھاتے ہیں شہر کی سب سے زیادہ آبادی کشمیر سے آئے ہوئے لوگوں کی ہے یہ لوگ ڈوگرہ راج میں یہاں گجرانوالہ آ کر آباد ہوئے سیالکوٹ لاہور اور گجرانوالہ میں بٹ بھائی اکثریت سے پائے جاتے ہیں۔جسمانی ساخت اچھی ہے اکھاڑوں اور کسرتی کلبوں میں انہی کی بھرمار ہوتی ہے پاکستان کے لئے بڑے ٹائٹل جیتے ہیں۔شہر میں پچیس فی صد آبادی انہی کی ہے شہر کے پرانے بسنیک ارائیں اور گجر ہیں ۔گجر تو اب شہر میں کم البتہ دیہات میں ان کا زور ہے۔اس شہر بے مثال کے اسکول اور کالجز پنجاب بھر میں معروف ہیں عطا محمد اسلامیہ ہائی اسکول ستر کی دہائی کا چیمپئن اسکول تھا گورنمنٹ کالج کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے۔

شہر کا کوئی ہی بندہ ایسا ہو گا جو اکھاڑے نہ گیا ہو۔یہاں مدارس کی بڑی تعداد ہے۔ایم ایم اے کی ٹکٹ پر ایک بار درویش صفت عالم دین اسمبلی میں جا چکے ہیں۔کسی زمانے میں پیپلز پارٹی نے انتحابی معرکے جیتے تھے لیکن اس کے بعد خاص طور پر اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر دستگیر خان منتحب ہوئے تھے۔ایک بار شیخ منصور بھی رکن منتحب ہوئے اس وقت شہر کی دونوں سیٹیں نون لیگ کے پاس ہیں صوبائی نشستوں پر بھی مسلم لیگ ہی کا قبضہ ہے۔ کسی زمانے میں اس شہر کو ایشیا کا گندہ ترین شہر کا اعزاز حاصل تھا جو اب اس سے چھن چکا ہے۔شہر میں اب تو سگنل بھی لگ گئے ہیں پل اورسڑکیں بن گئی ہیں۔میڈیکل کالج یونیوسٹی کی شاخ بھی بن گئی ہے۔اس شہر کے یونس پہلوان،گوگا پہلوان،مینا پہلوان باڈی بلڈروں میں حافظ عزیز اللہ نام کما چکے ہیں۔سیاست میں ایک قد آور نام سعید بھٹی کا بھی تھا جو اپنوں کے اہتھوں ہی چھوٹے کر دئے گئے یہ وہ بندہ تھا جس سے جاوید ہاشمی لیاقت بلوچ جیسے لوگ بھی محفل کرنا اعزاز سمجھتے تھے۔شہر کے پرانے لیڈروں میں کاظم علی شاہ،علامہ عزیز انصاری،بدر دین انصاری،چودھری برخودار،ابراہیم انصاری سیٹھ رشید لالہ فاضل ایزد مسعود کو بھلایا نہیں جا سکتا طالب علم رہنمائوں میں نوید انور نوید،سلمان کھوکھر نہیں بھلائے جا سکتے۔ اسی شہر میں والدین بھی دفن ہیں جنہوں نے ١٩٥٠ میں آ کر بسیرا کیا تھا۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری