عدالت کی طرف سے سزا یافتہ مریم صفدر صاحبہ، نائب صدر نون لیگ نے پریس کانفریس کر کے پہلے کی طرح پاکستان کی عدلیہ پر ایک اور وار کیا ہے۔مریم صاحبہ فرماتی ہیں کہ جج صاحب پر دبائو تھا ۔ جسکی وجہ سے جج صاحب نے سپریم کورٹ کی بنچ کی طرف سے تا حیات سیاست سے نا اہل قرار دیے گئے، سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب کو ٧ سال کی سزا سنائی۔ عجیب واقعہ ہے کہ اسی جج صاحب نے ایک مقدمہ میں نواز شریف کو بری بھی کیا تھا۔کیا اس وقت نواز لیگ کی کی طرف سے دبائو کے تحت جج صاحب نے نوزا شریف کو بری کیا تھا؟اپنے الزام کے ثبوت میں مریم صاحبہ نے پریس کے سامنے ایک جعلی ویڈیو پیش کی۔ جس میں جج صاحب کہہ رہے ہیں کہ میں نے دبائو کے تحت نواز شریف کو سزا سنائی۔مریم صاحبہ نے مطالبہ کیا کہ نواز شریف کی سزا ختم کرکے انہیںباعزت بری کیا جائے۔
اس کے برعکس عدالت کی معزز جج صاحب نے ایک پریس لیز جاری کی کہ یہ سب کچھ غلط ہے۔بلکہ نواز شریف کی طرف سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے رشوت پیش کی تھی۔ رشوت لے کر نواز شریف کو اگر بری نہ کیا تو سخت نتائج کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ یہ بھی کہا کہ ویڈیو بنانے ولا رولپنڈی کا رہنے والا ہے۔ اس کے میرے ساتھ پرانے تعلوقات ہیں۔ یہ اکثر مجھ سے ملنے کے لیے میرے گھر آیا کرتے تھے اور ملتے رہتے تھے۔۔ مختلف وقتوں میں آف دی ریکارڈ گفتگو کو موڑ توڑ کر ایک جعلی ویڈ کو مجھ سے منصوب کیا گیا جو بل لکل غلط ہے۔یہ مجھے،میرے خاندان اور پاکستان کے عدالتی نظام کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ میں نے اپنے ضمیر کے مطابق اور اللہ کو حاضر ناظر جان کرایک مقدمہ میں شہادتیں نہ ہونے کی وجہ سے نواز شریف کو بری کیا اور ایک مقدمہ میں شہادتوں کی بنیاد پر نواز شریف کو سزا سنائی۔اس غلط پریس کانفریس اور جعلی ویڈو کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔
دوسری طرف عمران خان حکومت کی اطلاہات کی معاون خصوصی عاشق اعوان صاحبہ نے اس پریس کانفریس کے خلاف کہا کہ سر اسر جھوٹ کی بنیاد پر ہیں۔پرانے وطیر ے کی طرح ملک کی عدلیہ کو دنیا میںبدنام کرنے کے لیے حملہ کیا گیا ہے۔اس ویڈیو کا بنانے والا ایک سزا یافتہ مجرم ہے ۔اس پر ابھی کئی مجرمانہ مقدمے قائم ہیں۔ اس مجرم کو استعمال کر کے یہ جعلی ویڈیو بنائی گئی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے فرانسک چیکنگ کی جائے گئے۔ دودھ کادوھ اور پانی کا پانی جلد ہی عوام کے سامنے آ جائے گا۔ اسی دوران الیکٹرونک میڈیا پر ایک لڑکا پیش ہوا۔ اس نے اپنے خاندان کے ساتھ جعلی ویڈیو بنانے والے کی طرف سے روا رکھی گئی ظلم کی داستان سنائی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق صاحب نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے ہمارے عدالتی نظام پر دشمن نے حملہ کرانے کی سازش کی ہے۔ حکومت فوراً ایک یوڈیشنل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرے۔ اور اس واقعہ کی مکمل تحقیق کے بعد عوام کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرے۔ جرم ثابت ہونے پرمجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ نوازشریف جس کوپاکستان کے عوام نے تین دفعہ پاکستان کے کا وزیر اعظم منتخب کیا ۔مگر عوام پر صادق اور امین بن کر آئین کے مطابق عوام کے خزانے کی رکھوالی کرنی تھی نہ کہ عوام کے خزانے پر ڈاکہ ڈالنا تھا۔جب نواز شریف کے خاندان کا نام آف شور کمپنیوں میں آیا ۔ اپوزیشن نے نواز شریف پر گرفت کی۔ کہا گو کہ نواز شریف کا نام آف شور کمپنیوں میں نہیں۔ مگر ان کی اولاد کا نام توآف شور کمپنیوں میں ہے۔ مریم صفدر صاحبہ کہتی تھیں کہ میری پاکستان اور بیرون پاکستان کوئی پراپرٹی نہیں، جبکہ پراپرٹی تھی۔ اپویشن نے کہا نواز شریف پر ملک کا وزیر اعظم ہیں۔ اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیںاس حوالے سے اس پر بھی ذمہ داری آتی ہے کہ معاملے کو صاف کرے۔اپوزیشن کے اس اعتراض پر نواز شریف بہت پریشان ہوئے۔ ایک دفعہ پارلیمنٹ اور دودفعہ الیکٹرونک میڈیا پر کہا یہ ہیں میرے خدندان کے کاروبار کے ثبوت۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کہا کہ اپوزیشن کے ان اعتراضات کا عدالت میں جائزالیا جائے ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے۔
اس خط کے جواب میں سپریم کورٹ کی جج صاحب نے واپس نواز شریف کو خط لکھا کہ پرانے قانوں میں سقم ہے ۔اس کے تحت اگر اس کیس کو سنا گیا تو نتیجہ نکلنے میں سالوں لگ جائیں گے۔ پارلیمنٹ سے نئے ٹی اور آر بنائے جائیں۔ جس کے تحت مقدمہ سنا اور کوئی فیصلہ کیا جا سکتے ہے۔ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود نوازشریف نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے نئے ٹی آر او پاس نہیں کروائے۔ بلکہ ان کی وزیر کہتے ہوئے سنے گئے کہ معاملہ لمبا ہونے سے خود ہی ختم ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ سے مایوس ہونے کے بعد، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت نے سب فریقین سے تحریری ضمانت لی کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی سب کو تسلیم کرنے پڑے گا۔معزز عدالت نے کیس سنا۔ پہلے تین ججوں نے نواز شریف کو صادق و امین نہ ہونے پر تاحیات سیاست سے نا اہل قرار دیا۔ دو ججوں نے کہا کہ اس کی مزید تحقیق کر لی جائے۔اس وقت عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے نواز شریف کے لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ۔ کہاکہ دیکھو، دو ججوں نے ہمار حق میں فیصلہ کیا ہے۔
جبکہ دو ججوں نے بھی نوازشریف کے حق میں فیصلہ نہیں دیا تھا صرف ریلیف دیا کہ مذید تحقیق کر لی جائے۔خیر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مذید تحقیق کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی۔ اس کو ایک وقت مقررہ وقت کے اندر تحقیق کر کے اپنی فائنڈنگ عدالت میں فائنل کاروائی کے لیے پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔ جے آئی ٹی کی تحقیق پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو ملکی سیاست کے لیے تا حیات نا اہل قرار دے دیا۔پھر کیا تھا سپریم کورٹ کے معززجج صاحب اور فوج پر الزامات کی بھر مارکردی گئی۔ سارے پاکستان میں بڑے بڑے جلسے کر کے کہا گیا کہ مجھے کیوں نکالا گیا۔ میں تین دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوا۔ مجھے سیاست سے تاحیات نااہل قرار کیوں دیا گیا۔ ملک میں مارشل لگائی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ ستر سال میںملک کے سارے وزیر اعظموں کے ساتھ فوج نے یہی رویہ ختیار کیا۔مجیب کے ساتھ بھی فوج نے ایسا ہی کیا کہ ملک ٹوٹ گیا۔ فوج اور عدلیہ کے خلاف نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم صفدر نے مہم پورے پاکستان میں جلسوں اور ریلیوں میں دھرائی۔ فوج اور عدلیہ کے خلاف یہ قوالی نواز شریف کے وزیروں مشیروں نے کی۔ پھر عدالت کی توہین کرنے والوں پر کیس قائم کر کے ان کو ملک کے قانون کے مطابق سزا سنائی۔سب نے عدالت س معافیاںمانگ مانگ کر جان چھڑائی۔یہ پروپیگنڈہ مہم اس وقت فیل ہوئی ہو گئی جب آئین قانون کے مطابق پارلیمنٹ میں نون لیگ کے نئے وزیر اعظم چن لیے گئے۔ سینیٹ کے انتخابات وقت پر مکمل ہو گئے۔ملک کے عام انتخابت بھی ہو گئے۔ملک قانون کے مطابق چلتا رہے اور اب بھی چلتا رہے گا ان شاء اللہ۔
عمران خان بھی نئے پاکستان اور مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے نعرے بہت لگاتے ہیں ۔ مگر کسی بھی کرپٹ شخص سے پیسے لے کر پاکستان کے خزانے میں داخل نہیںکر سکے۔ ملک میں غریب عوام پر مہنگائی کا طوفان لے آئیں ہیں۔ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ملازمین سے پاکستان کا بجٹ بنوایا۔ آئی ایم ایف ایک سود خور اداراہ ہے اس کو پاکستان کی ترقی نہیں اپنے سود کی قسط کی فکر رہوتی ہے۔ ملک کے حقیقی خیر خوائوں اور ماہر معاشیات سے بجٹ بنوانا تھا۔ امیروں سے پیسا نکلوا کر غریبوں کو مہنگائی، بے روز گاری اورقیمتوں کے اضافے سے نجات دلانی تھی۔ تب آپ کا مدینہ کی طرز کی فلائی ریاست کا خواب پورا ہوتا۔ پاکستان کے موجودہ قانون کے مطابق بہت دیر لگ رہی ہے۔ نئی قانون سازی کرکے سعودی عرب طرز کا کوئی ایکشن لے کر غریب عوام سے لوٹا ہوا پیسا واپس خزانے میں داخل کریں تو حالات درست ہو سکتے ہیں۔اگر عوام کے ساتھ موجودہ ظلم دیر تک جاری رہا تو ملک کسی خونی انقلاب کی طرف ملک چل پڑے گا۔
صاحبو!سپریم کورٹ پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق انصاف کے فیصلے کرتی ہے۔ اگر ایک کیس میں ان کے حق میں فیصلہ ہو تو انصاف ہے اگر دوسرے کیس میں ان کے خلاف فیصلہ ہو تو ظلم ۔یہ دوہرا معیار کیوں؟اگر سیاست دانوں کے بنائے قانون کے مطابق نیب ان سے آمدنی سے زیادہ اثاثوں کامعلوم کرے تو نیب کے چیف کے اخلاق پر کسی خاتون کی ویڈیو پیش کر دی جائے۔ اب پھر نون لیگ کی نائب صدر، جو عدالت سے سزا یافتہ ہے ، مریم صفدر صاحبہ نے جعلی ویڈیو پریس کانفرنس میں پیش کر کے ملک کی معزز عدلیہ کو دنیا میں بدنام کرنے کی نئے سرے سے کوشش شروع کی ہے۔ جبکہ نون لیگ کے اس معیارکے مقابلے میں جدید جمہوری حکومتوں کے وزیر اعظموں نے کرپشن کا الزام لگنے پر اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کیا۔ ان کی عدالتیں اپنے فیصلوں میںدودھ کادودھ اور پانی کا پانی کر دیتیں ہیں۔کیا پاکستانی سیاست دان اختیارات میں رہ کر غریب عوام کے خزانے سے پیسہ لوٹ کر باہر ملکوں میں رکھیں۔ پاکستان کی عدلیہ ان سے کرپشن، آمدنی سے زاہد اثاثوں اور باہر ملکوں سے حاصل کردہ اقاموں کا حساب مانگیں تو ملک کے قانون کے مطابق جواب دینے کی بجائے اپنی معزز عدلیہ پر الزامات لگانے شروع کر دیں؟ مریم صفدر صاحبہ سیاست دانوں کو عوام اور عدلیہ کو حساب تو دینا ہی پڑے گا۔