محکمہ دفاع حکم پرعمل نہیں کر رہا ہے

Judiciary

Judiciary

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

آج پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کو ایک اعلیٰ ترین ایک طاقتور طبقہ پیروں تلے روند رہا ہے۔یہ پاکستان کا ایسا طبقہ ہے ۔جو پاکستان کاخون جونک بن کران کی رگوں سےچوستارہا ہے۔یہ طبقہ جسے اورجب چاہےاسکرین آئوٹ کر سکتا ہے۔ مگر اس کے جرائم پر بات کرنے والے اس ملک میں جیتے نہیں رہتےہیں!اس طبقے کا پہلا بد معاش جنرل گریسی تھا۔جس نے پاکستان کے قائد اعظم اور اس کے سربراہ کی بات ماننے سے انکا ر کردیا تھا۔پھر یہ رسم ایسی چلی کہ پاکلستان کے ایک نمک خوار بنوق بردار جنرل نےمیرے قائد سے بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔تو میرے قائد نے اس کے بیج اتروا کر مشرقی پاکستان میں او ایس ڈی بنا کر بھیج دیا۔مگر جیسے ہی میرے قائد کی آںکھیں بند ہوئیں۔اس کے ساتھ ہی اس کھلنڈ رے جنرل ایوب خان نے ایک سابق جنرل سے مل کر سازش کی اور پاکستان کی اسمبلی کو تڑوا کر یہاں سے جمہوریت کا بستر لپیٹ کے رکھ دیا۔اب اس کے سوا ہر پاکستانی غدارِ وطن ٹہرا۔اس جمہوریت کے قاتل نےملک کے تمام سیاست دانوں کو کھُڈے لائن لگا کر اس ملک سے ہمیشہ کے لئے سیاست کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی۔یہ وہ لوگ ہیں جو کرتے کچھ نہیں کماتے خوب ہیں اور گاتے بھی بہت زیادہ ہیں۔ بلکہ آج گانابجانا بھی ان کے نام کر دیا گیا ہے۔ہر کمائی کے ذریعے پر ان کے اور ان کی اولادوں کی نظریں لگی رہتی ہیں۔ان کو کوئی روکے ٹوکے توکیسے؟یہ تواس ملک کے مائی باپ ہیں۔اگر صحیح معنوں میں سروے کیا جائے تو 80 فیصد پاکستان کی دولت انہی کے خاندانوں کےپاس نکلے گی۔یا ان لوگوں کے پاس نکلے کی جن کے کندھے یہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ تو کماتے ہیں اورچھلی گلی سے نکل لیتے ہیں۔

پاکستان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا طبقہ ہرچیزپر ٹیکس دیتا ہے مگر ہمارا فوجی ہر ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ لوگ آسمانی مخلوق ہیں؟ کہ ان پروطنِ عزیز کا کوئی ٹیکس ہی لاگونہیں ہو تا ہے۔انہیں ہر چیر ڈیوٹی فری کیوں ملتی ہے؟ہر گناہ ان پر معاف ہے؟یہ لوگ جمہوریت سے تو کبھی بھی خوش نہیں رہے۔وطن و قوم انہیں نام دیتے ہیں۔مگر یہ وطن و قون سے ان کے منتخب نمائندے چھیننے میں ذرا دیر نہیں کرتے ہیں۔جب یہ لوگ اقتدار پر شب خون مارتے ہیں تو پوراملک انکے پرکھوں کی جاگیر بن جاتا ہے۔جب قوم انہیں جوتے مار کر اقتدار آئوٹ کرتی ہے تو یہ ڈنڈا اٹھا کر پوری قوم سے بدلہ لینے کی قسمیں اٹھا لیتے ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم دکھوں کے مارے ان کے عتاب سے بچ ہی نہیں سکتے ہیں۔

جب بھی ان کو موقعہ ہاتھ آتا ہے یہ شب خون مارنے سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔جہاں اصل ذہنیت قادیانت کی کار فرما رہتی ہے۔کیونکہ ان بد طینت لوگوں کو پاکستان کاقیام ہی کھلتا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کے پرکھوں نے پاکستان کے قیام کی بھی کھل کر مخالفت کی تھی۔اور مشرقی پنجاب کے اکثر علاقےہندوستان میں شامل کر وا دئے گئے۔جس سے ہمیں اور ہمارے ملک کو دو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک پانی ہمارے ہاتھوں سے نکلوادیاگیا۔دوسرے مسئلہ کشمیر ہمارے لئے مشکل بنوا دیا گیا۔یہ پاکستان کے غدار اسٹابلشمنٹ کے بڑے بڑے عہدوں پر مسلمان بن بن کر قابض کر دیئے گئے ہیں۔اس طقیئے میں ہی ان کی نجات ہے۔یہ لوگ جمہوریت سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔کیونکہ ان کو ہیمیشہ یہ خوف رہتا ہے ۔کہ اگر نواز شریف جیسا رہنما ملک پر مقتدر ہو گیاتو وہ انہیں ہر برے کام پر ٹوکے گاضرور!اگر ایسا ہوگا تو ہتھوڑے اور بوٹ کا اتحاد پیدا کر لیا جائے گا۔جو پھر جمہوریت پر شب خون ہی مارے گا۔جیسا کہ حال کی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے عوام سوال کرتے ہیں کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔تو پھر بزنس اپارٹمنٹس،فوجی شوگر ملیں، فوجی فرٹیلائزر،یہ فوجی نیٹ ورک، میڈیکل کالجز، اور عام کالجز،یہ زمینوں پر قبضے،یہ سرکاری زمینوں پر غیر قانونی شادی ہالزتعمیر کر کے کیوں چلائے جا رہے ہیں؟ کیا ان لوٹ کھوسٹ کے پیسوں میں پاکستان کا بھی کوئی حصہ ہے؟یہ کیسے پروفیشنلز ہیں کہ انہیں ہر شعبے میں جیک آف آل کا سرٹیفیکٹ حاصل کر لیا ہے۔میرے ان سوالوں کے بعد شائد میری زندگی کا بھی سوال پیداہوجائے۔مگر شبیر توبولے گا! میں پاکستانکے خلاف غداری کس طرح وطن پرستی کے نام پر قبول کر لوں؟پاکستان کے عوام یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا ساری دنیا کا فوجی بھی ہمارے فوجیوں کی طرح دفاع سے ہٹ کر بھی کوئی بزنس کرتا ہے؟مگراس ملک میں طاقت کے بل پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

بروزبدھ 9مئی 2019کوکراچی میں سپریم کورٹ رجسٹری میں فوجیوں کے زمینوں پر قبضے اور شادی ہالز سے متعلق سیکریٹری دفاع کی رپورٹ کومسترد کرتے ہوئے سندھ کے بلدیاتی وزیر سعید غنی کو بھی توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ کیونکہ انہوں نے کسی خوف کی وجہ سےعدالتی حکم پرعمل نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ کنٹورنمنٹ بورڈ کو ہائوسنگ سوسائٹی بنانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ڈی ایچ اے غلط بنایا گیا ہے۔جو ہر حال میں غلط ہے۔عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ کراچی میں 70 فیصد تعمیرات غیر قانونی ہیں۔فوج جیسا ادارہ اور اس کے لوگ غیر قانونی طور پر قبضوں اور تعمیر ات میں ملوث ہوں تو دیگر لوگوں سے سوال کیامعنی؟عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کیا عدالتیں بند کر دیں؟

کراچی خاص طور پر ایساعلاقہ ہے کہ اس کاکوئی پرسانِ حال ہی نہیں ہے۔یہ غریب کی جورو سب کی بھابھی کے مصداق ہے۔جہاں ہرجانب لوٹ بازار لگے ہیں جس میں ہمارے بڑے بڑے اداروں کے بڑے لوگ ملوث ہیں۔جہاں کوسٹ گارڈ نے بھی بہتی گنگا جل میں خوب پیاس بجھائی ہے۔کونگی کے ایک وسیع علاقے پر ان کے بیسیوں غیر قانونی شادی ہالزاور کئی پیٹرول پمپس کروڑوں روپے کا غیر قانونی بزنس کر رہے ہیں۔جو نہ کوی کرایہ اور نہی کوئی ٹیکس دیتے ہیں۔سار پیسہ ان کے بڑون کی جیب میں جاتاہے۔ ان لوگوں پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرا ئت کر ہی نہیں سکتا ہے۔محکمہِ دفاع تک نے عدالتی فیصلوں کو پسِ پشت ڈالا ہوا ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید