خزاں کے بعد بہار کا آنا قانونِ فطرت مگر (خاکم بدہن) وطنِ عزیز سے شاید بہاریں روٹھ چکیں۔ ہر طرف دَم توڑتی اُمیدو ںکے برہنہ پیڑ اور چٹیل میدان، کہیں سبزہ نہیں، ہریالی نہیں، اگر ہے تو فقط اُمیدِ فردا۔ رَہزنوں سے کیا گِلہ کہ ہمیں تو رَہبروں نے لُوٹا۔ آصف زرداری نے جذباتی ماحول میں ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگایاتو قوم اُن کی ہمنوا بن گئی۔ حقِ حکمرانی پیپلزپارٹی کو ملا توہم نے یہ جانا کہ آصف زرداری کی شکل میں بینظیربھٹو کا متبادل مل گیا لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا”۔ زرداری اور حواری وطنِ عزیز پر یوں جھپٹے جیسے مردار خور گِدھ۔ اُن کی کرپشن کی کہانیاں زباں زدِعام ہوئیں اور تاحال یہی شور ۔ سوال مگر یہ کہ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے پیپلزپارٹی کے دَور میں بھی تھے، عام عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک پوری عدلیہ تب بھی موجود تھی۔ پھر کسی کو کرپشن کے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟۔ آج ہماری انتہائی محترم سپریم کورٹ اپنی فعالیت کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے لیکن ”دَورِزرداری” میں یہ فعالیت کہاں سو گئی تھی؟۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب سانپ گزر جاتا ہے تو ہم لکیر پیٹنے لگ جاتے ہیں۔ جب کرپشن کے عفریت سارا کھایا پیا ہضم کر چکے تو شور اُٹھا کہ اربوں ،کھربوں ڈالر ملک سے باہر جا چکے۔ اب یہ پیسہ واپس لانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں اور بڑھکوں کے زور پر زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ ہمارا خیال مگر یہ کہ ”اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر”۔
دَورِزرداری گیاتو نوازلیگ کو حقِ حکمرانی ملا۔ تب بھی ہم نے یہی سوچا کہ تبدیلیوں کا موسم قریب آن لگا، اُمیدوں کی کھیتیاں ہری بھری ہونے کو ہیں اور آشاؤں کا چمن مہکنے کو ہے۔ دھرنوں کی صورت میں بادِ سموم چلی ضرور مگر حکمران ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہے، کچھ نہ کچھ ہوا تو سہی۔ سڑکوں کا جال بِچھا، اووَر ہیڈ اور اَنڈر پاس بنے، بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع ہوئے، مختلف شہروں میں میٹرو بسوں کا پہیہ رواں ہوا، عروس البلاد کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں، پرچی مافیا اور بھتہ خوروں کو نشانِ عبرت بنایا گیا،تحریکِ طالبان پاکستان نامی دہشت گردوں کا قلع قمع ہوا، کچھ واصلِ جہنم ہوئے اور کچھ چوہوں کی طرح افغانستان میں جا گھسے، شمالی و جنوبی وزیرستان میں ہر جگہ سبز ہلالی پرچم لہرانے لگا، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کا خاتمہ ہوا اور فراری دھڑادھڑ ہتھیار ڈالنے لگے۔ سب سے بڑھ کر اقتصادی راہداری منصوبے پر کام شروع ہوا۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جو ایٹمی پاکستان کو اقتصادی قوت بھی بنا سکتا ہے۔ ایک ایسی قوت جو دوسروں کے کشکول میں بھیک تو ڈال سکتی ہے، اُسے خود کشکول اُٹھانے کی حاجت ہے نہ ضرورت۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جہنم سے نکلے ہوئے پڑوسی بھارت کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے رہتے ہیں ۔
پھراسباب پڑے یوںکہ کسی نا معلوم سمت سے چلنے والی بادِسموم نے سب کچھ اُتھل پُتھل کردیا۔ پاناما لیکس کا ڈنکا بجا اور ایسا شورِقیامت اُٹھا جو سب کچھ تباہ وبرباد کر گیا۔ شاید یہ اُسی ”سونامی” کی تباہ کاریاں تھیں جس کا کپتان 2012ء سے ذکر کرتے چلے آرہے تھے۔ کپتان کی اُمید بَر آئی، میاں نوازشریف سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے انتہائی متنازع فیصلے پر نااہل ہوئے لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی تو کپتان کا یہ فرمان بھی پایۂ تکمیل کو پہنچنا تھا کہ ”اڈیالہ جیل” میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان کا انتظار کر رہی ہے۔ پھر احتساب عدالت کی منادی ہوئی ۔ میاں صاحب، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر لگ بھگ سو پیشیاں بھگتنے کے بعد احتساب عدالت کے ایک ایسے فیصلے پر اڈیالہ جیل جا پہنچے جسے شاید دنیا کی کوئی عدالت بھی ماننے کو تیار نہ ہو۔ لاریب یہ فیصلہ پاکستان کی تاریہخِ عدل میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔ اِس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی انتہائی غلط اور غیرحقیقی فیصلہ قرار دیا ہے۔ ابھی سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی گونج باقی تھی کہ عدل کی تلوار وزیرِاعظم نوازشریف پر ایسے گری کہ سبھی حیرت زدہ ۔شاید یہ وہی ”مائنس وَن” ہے جس کے 2015ء سے تذکرے فضاؤں میں تھے۔ ان ”مائنس ٹو” کی باری ہے۔ ”خاندانِ زرداریہ” کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا۔ کوئی دن جاتا ہے جب ”مائنس ٹو” کا شور بھی اُٹھے گا لیکن ”مائنس تھری” کے لیے شاید قوم کو کچھ عرصہ مزید انتظار کرنا پڑے۔
اب مسلسل جمہوریت کا تیسرا دور شروع ہو چکا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کو حیران کُن کامیابی ملی۔ اِس کامیابی کے پیچھے امپائر کی انگلی تھی یا پورا ہاتھ، اِس کا فیصلہ ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں البتہ یہ اظہرمِن الشمس کہ دھاندلی کا جتنا شور اب کی بار اُٹھا، پہلے کبھی نہیں۔ تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر پاکستان کی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں نے (جن میں تحریکِ انصاف کے اتحادی بھی شامل ہیں) اِن انتخابات کو ”کھُلی دھاندلی” کا شاہکار قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمٰن اِس پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے ارکانِ اسمبلی کے حلف اُٹھانے کے حق میں بھی نہیں تھے، نوازلیگ گومگو میں تھی لیکن پیپلزپارٹی حلف اٹھانے پر ڈٹ گئی۔ شاید اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر آصف زرداری نے اپوزیشن سے الگ کھڑے ہونے میں ہی عافیت جانی۔ وہ خوب جانتے تھے کہ ”زورآوروں” کا جھکاؤ کِس طرف ہے۔حلف برداری ہوئی اور عمران خاں دیگر سات اتحادی جماعتوں کی مدد سے وزیرِاعظم بن گئے۔ آج اتحادی ایم کیو ایم سے دو وزراء کپتان کی کابینہ میں شامل ہیں، خالد مقبول صدیقی وہی ہیں ناں جو الطاف حسین کے لیے چھ ارب روپے کی مَنی لانڈرنگ میں ملوث تھے اور وزیرِقانون فروغ نسیم بھی وہی جو کل تک ”ٹارگٹ کلرز” کی وکالت کرتے رہے۔ یہ مجبوری نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ایم کیو ایم کے خلاف کپتان ہمیشہ زہر اگلتے رہے آج وہی اُس کی اتحادی۔وہی قاف لیگ اُن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے جسے وہ چور اور ڈاکو جیسے القاب سے نوازتے رہے۔ کابینہ میں موجود ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال کی کرپشن کی کہانیاں آج بھی زباں زدِعام ۔ کپتان کی کابینہ کے دوسرے وزراء کا اگر کچّا چٹھا کھول دیا جائے تو قوم انگشت بدنداں رہ جائے۔ ایسی ٹیم کے ساتھ تبدیلی کا نعرہ ؟۔ اگر سونامیے کسی خوش فہمی میں مبتلاء ہیں تو بہت جلد یہ دور ہو جائے گی کیونکہ تبدیلی ایسے نہیں آیا کرتی۔
جب سونامیوں سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ آپ وقت کا عنصر درمیان سے نکال دیتے ہیں، ابھی توکپتان کو حلف اُٹھائے بیس دِن ہی ہوئے ہیں، ابھی اُن کی کمر بھی سیدھی نہیں ہوئی کہ آپ لوگوں نے آسمان سر پہ اُٹھا لیا۔ بالکل بجا مگر جو کام نوازلیگ کی حکومت میں جاری تھے، اُن کا کیا ہوا؟۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ نوازلیگ کے دَور میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی اور یہ بھی عین حقیقت کہ نوازلیگ کے دَور میں 10 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پول میں شامل ہوئی۔ پھر 12، 12 اور 18، 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کیوں؟۔ ہمارے گھر میں یو پی ایس کا مسلہ ہوا تو ہم نے اپنے الیکٹریشن کو بلایا۔ یوں ہی باتوں، باتوں میں ہم نے اُس سے پوچھا کہ ووٹ کس کو دیا؟۔ الیکٹریشن نے بڑے فخر سے کہا ”تحریکِ انصاف کو”۔ پھر وہ خود ہی کہنے لگا کہ اب وہ بہت خوش ہے ۔ ہم نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ نوازلیگ کے دَور میں تو ہمارا کام ٹھَپ ہو چکا تھالیکن جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے، ہمارے یو پی ایس دھڑادھڑ بِکنے لگے ہیں۔
اُس نے کہا ”باجی! یقین جانیں کہ پرسوں ہال روڈ پر اِس خوشی میں باقاعدہ جشن ہوا کہ لوڈشیڈنگ ایک دفعہ پھر اپنے جوبن پر آگئی۔ وہ لوگ جو تھوک کے حساب سے یو پی ایس بنا کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے، اب ڈیمانڈ پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ اِس لیے ہم تو عمران خاں کو دعائیں دیتے ہیں۔ تب سے اب تک ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ جب ہمارے گھر میں ہر گھنٹے بعد لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور ہر پانچ، چھ دِن بعد متواتر آٹھ، آٹھ گھنٹے بجلی ندارد ، تو دیہاتوں کا کیا حال ہوگا؟۔ یہی صورتِ حال مہنگائی کی ہے۔ سوائے آلو کے کوئی بھی سبزی سو، سوا سو روپے کلو سے کم نہیں، گیس کی قیمت 46 فیصدتک بڑھا دی گئی، بجلی کی قیمت میں 2 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا۔ تو کیا ”تبدیلی” اِسی کا نام ہے؟۔ یہ حکومتی اقدامات ”غربت مکاؤ” کے لیے ہیں یا”غریب مکاؤ” کے لیے؟۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ تبدیلی کا موسم آن پہنچا لیکن جس تبدیلی کی جھلک ہمیں دکھائی جا رہی ہے، اُس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بادِسموم آنے کو ہے۔ پھر بھی دِل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ کپتان کو ایفائے عہد کی توفیق دے کہ اِسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔