فیصل آباد : ڈیفینس آف ہیومن رائیٹس کی چئیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنا کتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ جسکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بچھلے سالوں سے انسانی حقوق کی بحالی اور اس کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہوں مگر جتنی مشکلات آج کے دور میں ہیں اس سے پہلے نہیں تھیںپرویز مشرف کے دور میں بھی احتجاج دھرنے ہوتے تھے مگر اتنی مشکلات نہیں تھیںجتنی کہ آج اس جمہوری دور میں ہے مشرف دور میں کبھی کسی انسانی حقوق کے کارکن کو نہیں اُٹھایا گیا مگر آج اس جمہوری دور میں انسانی حقوق کے کارکن بھی محفوظ نہیں ہیں۔
اس موقع پر اُنھوں نے فیصل آباد سے اُٹھائے جانے والے انسانی حقوق کے کارکن اور ڈیفینس آف ہیومن رائیٹس فیصل آباد کے کو آردینیٹر مظہر الاسلام اور ان کے بھائی سہیل اختر کا خصوصی زکر کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 2 ماہ لا پتہ ہونے والے یہ دونوں بھائی جو صرف اور صرف انسانیت کی خدمت میں مصروف تھے جن کا کام لا پتہ افراد کی فیمیلیز کی مدد کرنا اور انھیں قانونی معاملات میں تعاون کرنا تھا۔ اکثر جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کی میٹینگز میں وہ شریک ہوئے تھے اور لا پتہ افراد کی فیمیلیز کی نمائندگی کرتے تھے۔
جس وجہ سے انھیں دھمکیاں بھی ملیں اور بالآخر 29 اپریل 2016 رات 2 بجے ایلیٹ فورس کے خوفناک آپریشن کے نتیجے میں ان دونوں بھائیوں کوانکے گھر فیصل آباد سے اُٹھا لیا گیا، جسکی ایف آئی آر اگلے ہی دن مدینہ ٹاﺅن تھانہ فیصل آباد میں درج کی گئی اور اس واقع کے تقریباً 50 دن کے بعد ڈرامائی طور پر انھیں ناظم آباد تھانہ کراچی میں ایک خوفناک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔
جبکہ بچھلے 40دن سے انکا کیس لا پتہ افراد کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن میں ان کا کیس درج ہے ۔ ناظم آباد تھانہ کراچی میں جب فیمیلی نے رابطہ کیا تو وہاں معمور اہلکاروں نے فیمیلی کے ساتھ نہایت بد تمیزی سے پیش آتے ہوئے ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا اور 2 لاکھ روپے ( ایک لاکھ پر بندہ) دینے کے لیے کہا بصورت دیگر ان پر سنگین الزمات لگانے کی دھمکیاں دیں جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایکشن لیں اور فی الفور ان دونوں بھائیوں کو رہا کرنے اور ان پر موجود جھوٹے الزامات اور کیسز ختم کرنے کے احکامات صادر فرمائے جائیں۔