اسلام آباد (جیوڈیسک) ماہرین صحت کے مطابق پیدائش کے وقت درپیش طبی مسائل کے علاوہ نمونیہ بچوں کی ان اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک موقر بین الاقوامی طبی جریدے “دی لانسٹ میڈیکل جرنل” کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں مختلف بیماروں کا شکار ہو کر 59 لاکھ بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو گئے اور ان میں سے 60 فیصد کا تعلق ایشیائی اور افریقی ممالک سے تھا۔
پاکستان بھی ان دس ایشیائی اور افریقی ملکوں میں شامل ہے جہاں گزشتہ برس پانچ سال سے کم عمر 36 لاکھ بچے موت کا شکار ہوئے۔ دیگر ملکوں میں بھارت، بنگلہ دیش، نائیجیریا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، چین، انگولا، انڈونیشیا، اور تنزانیہ شامل ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق پیدائش کے وقت درپیش طبی مسائل کے علاوہ نمونیہ بچوں کی ان اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2015ء میں موت کا شکار ہونے والے 59 لاکھ بچوں میں سے 27 لاکھ نوزائیدہ تھے۔ اسلام آباد میں بچوں کے امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر طلعت پرویز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نمونیہ سے بچاؤ کے لیے لوگوں میں آگاہی بہت ضروری ہے اور خاص طور پر کم عمر بچوں سے متعلق احتیاط کو ترجیح دے کر صورتحال کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
“حکومت اپنی سی کوشش کر رہی ہے نمونیہ کی ویکسین بغیر کسی قیمت کے فراہم کر رہی ہے وہ تو کم ازکم ضرور لگوائیں، شروع کے لیے جو تین مہینے، چھ مہینے یا سال کا عرصہ ہے اس میں بچوں کو اچھی طرح کور رکھیں، سردی سے بچائیں۔ تھوڑی سی احتیاط سے چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔”
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی شرح اموات پر بہتر انداز میں قابو پانے کے لیے پیدائش کے وقت مناسب طبی سہولت اور تربیت یافتہ عملے کا ہونا از حد ضروری ہے۔
حکومت یہ کہتی آرہی ہے کہ وہ صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدام کر رہی ہے جس میں لوگوں کو صحت کی مناسب سہولت تک رسائی آسان بنانا بھی شامل ہے۔ لیکن ایک عرصے سے ملک میں تعلیم کے علاوہ صحت کا شعبہ ایسا ہے جس کے کے سالانہ مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد سے بھی کم مختص کیا جاتا ہے۔
ماہرین صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حمل کے دوران ماں کی صحت کا خیال رکھنے کے علاوہ زچگی کے وقت ماہر اور تربیت یافتہ طبی عملے سے ہی استفادہ کیا جائے اور پیدائش کے بعد بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے علاوہ نمونیہ اور ملیریا کی ویکسین کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔