تحریر: روہیل اکبر تقریبا 20 کروڑ سے زائد انسانوں پر محیط پاکستان میں ساڑھے 9 کروڑ سے بھی زائد خواتین آباد ہیں انہی میں سے ایک محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ ہیں جوڈیشل اکیڈمی کے باہر پیشی بھگتنے کے حاضر ہوئی تو پولیس کی ایک سینئر آفیسر نے گاڑی کا دروازہ کھلتے ہی جھٹ سے سیلیوٹ کیا اور نیچے گرنے والے قلم کو جھک کر اٹھایا اور پھر مودبانہ انداز میں مریم بی بی کے ساتھ چلتی ہوئی وہ خاتون پولیس آفیسر جوڈیشل اکیڈمی داخل ہوگئی جبکہ اس دوران اور بھی بہت سے پولیس افسران ہاتھ باندھے کھڑے رہے پولیس کا ملزمان کے ساتھ اس طرح کا رویہ کوئی نئی بات نہیں جب بھی کوئی ملزم پیسے والا ہوتا ہے یا اقتدار میں ہوتا ہے پولیس ہمیشہ اسکی غلام ہی نظر آئی ہے۔
جبکہ دوسری طرف پورے ملک میں خواتین اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر انصاف کے لیے ترستی ہیں اور اسی مقصد کے لیے تو اکثر خواتین نے اپنے اوپر آگ بھی لگائی مگر ہماری پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی یہ وہ بھینس ہے جسکے آگے کوئی بین کام نہیں کرتی بلکہ چارہ کی ایک مٹھی بھینس کو دودھ دینے پر مجبور کردیتی ہے ہمارے دیہاتی علاقوں کے تھانوں میں تعینات پولیس والے جاتے ہی اس نیت سے ہیں کہ انہوں نے وہاں پر اپنے حصے کی دولت کیسے اکٹھی کرنی ہے بے گناہوں کو پکڑ پکڑ کر کیسے ذلیل وخوار کرنا ہے اور ناجائز فروشوں کوپروٹوکول دیکر ان سے مال کیسے بنانا ہے اور تو اور غریب اور بے بس خواتین کو مجبور کرکے انہیں کیسے سبق سکھانا ہے چور کو سعد اور سعد کو چور کب اور کیوں بنانا ہے یہ سب طریقے ہماری پولیس بہت اچھے طریقے سے سرانجام دے رہی ہے شک کی بنا پر گھروں میں گھس کر خواتین کی عزتیں پامال کرنا اور پھر گھسیٹ گھسیٹ کر گاڑی میں پھینکنا پولیس والوں کا طرہ امتیاز بن چکا ہے تھانے میں آنے والوں کو ذاتی ملازم سمجھنا اور پھر انہی کے کام کے لیے انکو خرچہ کرنے پر مجبور کرنا ہماری پولیس کا کمال ہے انصاف کے حصول کے لیے تھانے میں آنے والی مجبور خواتین کی عزتیں تھانوں میں ہی پامال ہوتی بھی دیکھی گئی انہی میں ایسی خواتین بھی ہیں جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتی ہیں۔
ایک سورج کی گرمی دوسری اینٹوں والے بھٹہ کی تپش اپنی جان کو جلانے والی خواتین اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے دے پاتی ہیں دیہاتوں میں جانوروں کے ساتھ جانوروں کی طرح کام کرنے والی ہماری مائیں اور بہنیں سال بھر کے بعد بھی ایک سوٹ کپڑوں کا نہیں خرید سکتی جاگیر داروں ،سیٹھوں اور بڑے بڑے ٹیکس چوروں کے گھروں کو شیشے کی طرح چمکانے والی خواتین اپنے پھٹے پرانے جوتے تبدیل نہیں کرپاتی اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف خواتین سالہا سال سے حصول انصاف کے لیے دھکے کھاتی کھاتی خاک بن جاتی ہیں سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں کام کرنے والی خواتین جنسی درندوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہیں کچھ مختلف اداروں میں اپنے حقوق کی جنگ لڑرہی ہیں مگر سوائے ناکامیوں اور مایوسیوں کے اور کوئی چیز انکے حصے میں نہیں آتی ،ہمارے سرکاری اداروں میں کام کے سلسلہ میں آنے والی خواتین وہاں پر بیٹھے ہوئے بھیڑیوں سے اپنا دامن بڑی مشکل سے بچا پاتی ہیں ،ہسپتالوں میں نام نہاد علاج کے بہانے خواتین کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے کیونکہ یہ سب خواتین کسی وزیراعظم کی بیٹیاں نہیں ہیں اور وزیراعظم بھی وہ جسے یہ مجبور اورمظلوم خواتین اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کرتی ہیں۔
اپنے بہتر مستقبل اور پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کے لیے مشکل ترین حالات میں گھر سے باہر نکل کر لائن میں لگ کرووٹ کی پرچی ڈالنا تاکہ قائداعظم کی محنت اور اقبال کے خوابوں تعبیر مل سکے مگر آج تک جو بھی آیا اس نے ہی عوام کو بیوقوف بناکر ملکی دولت لوٹی اور پھر سینہ تان کراپنی کرپشن کو جائز ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کازور لگادیا اور یہ صرف وہ افراد ہی نہیں کررہے جنہوں نے کرپشن کرکے ڈھیروں دولت کمائی بلکہ انکے ساتھ جڑے ہوئے ہر شخص نے اپنے اپنے حصے کی گالیاں اور دھمکیاں ضرور دی پانامہ لیکس کے حوالہ سے مختلف ممالک میں ایشوز اٹھے تھے الزامات لگتے ہی ان ممالک کے سربراہان نے حکومت سے فورا علیحدگی اختیارکرلی تھی مگر پاکستان ایسا واحد ملک ہے جہاں چوری اور سینہ زوری جیسے الفاظ کثرت میں بولے جاتے ہیں اور ان کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہواور پولیس پورے پروٹوکول کے ساتھ ملزمان کے دفاع میں کھڑی ہو تو پھر اپنا ووٹ دینے سے پہلے ایک بار لازمی سوچ لیں کہ یہ آپکے اعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عوام لٹنے کے باوجود ملزم بنی کھڑی ہے اور لوٹنے والے پورے زور شور سے گرج چمک رہے ہیں کبھی جے آئی ٹی کو دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کبھی مخالفین کو دبانے کے لیے جیلوں میں بند کرکے چوہے اور بچھو چھوڑے جاتے ہیں تاکہ عوام کی بات کرنے والوں کو سبق سکھایا جا سکے۔
جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے کہنے پر کام کررہی ہے جس نے صرف اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروانی ہے ابھی فیصلہ تو بعد میں سپریم کورٹ نے دینا ہے مگر حکمران طبقہ اور انکے حواریوں کو سازشیں ابھی سے نظر آناشروع ہوچکی ہیں اس لیے ابھی سب کو خاموشی سے انتظار کرنا چاہیے کہ جب فیصلہ آئے گا تب ا س فیصلے میں تلاش کریں کہ جمہوریت کے خلاف سازش کہاں ہے ،نظریہ پاکستان پر حملہ کدھر ہے ،خفیہ ہاتھ کہاں کھڑے اورکونسے ہیں ،اس تمام کیس کے نتیجہ میں نظام کی بے عزتی کیسے ہوئی،عوام کی توہین کونسی تھی ؟یہ تمام باتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیں ہیں دیکھنا تو یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے ملزمان سے ایسا کیا پوچھ لیاکہ ہر طرف ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی ہے اور بدتمیزی کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک فلم چل رہی ہے اور اس فلم کا ڈائریکٹر بہت خوبصورتی سے اسے اپنے انجام کی طرف لے کرجارہا جبکہ اسکے کردار بھی بڑی مہارت سے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
آج تک جتنے بھی ایشو زکھڑے کیے گئے جب وہ اپنے عروج پر پہنچتے تھے اسی دوران ایک نیاایشوبنا دیا جاتا تھا اور پھر چند ماہ بعد عوام کی نیندیں حرام کرنے والا معاملہ بلکل ختم کرکے نیا مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ سنگین بنادیا جاتاتھا یہ سابق صدر آصف علی زرداری کی کامیاب پالیسی تھی جسکی بدولت پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کیے اوراپنے نعرے روٹی ،کپڑا اور مکان کے برعکس کام کرکے عوام کی ذہنی ،جسمانی اور روحانی صلاحیتوں کو سلب کرلیا تھانہ جانے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ اسی فلم کو نئے ایکٹروں کے ساتھ پھر شروع کردیا گیا ہے تاکہ انسان کی جو بنیادی ضروریات روٹی ،کپڑا اور مکان ہیں ان سے توجہ ہٹائی جائے بے روزگاری ،لوڈ شیڈنگ اور قتل وغارت سے توجہ ہٹائی جائے صرف ایک ہی مسئلہ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ عوام کی نیندیں حرام ہوجائیں اور حکمران سکون سے اپنا وقت پوراکرکے آنے والے وقت کی پلاننگ کرتے رہیں مگر مجھے امید ہے کہ اس خوبصورت فلم پیشیاں کا اختتام انتہائی خطرناک ہوگا۔