پاکستان ماحولیاتی آلودگی میں شامل سرفہرست ملکوں میں شمار ہوتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ہی تجاوزات ہیں۔ پاکستان میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز 2 سال قبل عدالتی احکامات کے پیش نظر کراچی میں لگے بل بورڈز ہٹانے سے ہوا تھا، یہ بل بورڈز شہر کی خوبصورتی کو پھیکا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جان و مال کے لیے بھی خطرے کا باعث تھے۔جب دھیان تجاوزات کی جانب گیا تب تک بہت دیر ہوگئی اور جب تک سندھ بلڈنگ کنٹرو ل اتھارٹی نے اندھادھندعمارتیں بنانے کی اجازت دیکر شہر کا حلیہ بگاڑ دیا سندھ، پنجاب دیگر جگہوں پر چلے جائیں تو پتہ چلے گا کہ کاغذوں کی طرح عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں پھر غیر قانونی طریقے سے بلند و بالا تعمیرات کی اجازت دی گئی ان اجازت ناموں کا اجرا حکومت سندھ کیلئے شرم کا باعث بن رہا ہے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران آنکھیں بند کر کے کمائی کر رہے ہیں،جنہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔
رہائشی جگہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا اور کوئی کاروبار کرنا جرم ہے صرف کراچی ہی نہیں پنجاب اور سندھ کے دیگر اضلاع میں تجاوزات اور قبضہ مافیہ کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا لاہور میں ماڈل ٹاؤن، جوہر ٹاؤن، انارکلی، ٹاؤن شپ سمیت متعدد علاقوں میں تجاوزات ختم کر دی گئیں، آپریشن کے دوران کرینوں کے ذریعے سڑکوں اور بازاروں میں غیر قانونی ٹھیلے، دکانیں اور دیواریں گرادی گئیں۔دوسری جانب جن عمارتوں کو گرانے کا حکم دیا گیا ہے ان کی تعداد ہزاروں میں ہے گزشتہ ک? برسوں میں تجاوزات اور خلاف ضابطہ عمارتوں کی تعمیر سے ملک کا کوئی بھی شہر محفوظ نہیں رہا۔کراچی تجاوزات بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں سپریم کورٹ نے کراچی میں 500 عمارتیں اور شادی ہالز گرانے کا حکم دے رکھا ہے۔
میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ کوئی عمارت اور شادی ہال نہیں توڑیں گے البتہ غیر قانونی شادی ہالز گرائے جائیں گے رہائشی علاقوں میں قائم شادی ہالز کو نہ توڑا جائیگا لیکن رہائشی عمارتیں نہیں توڑیں گے،سعید غنی نے کہا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے اپوزیشن بھی اس کی سخت مخالفت کرتے دکھائی دے رہی ہے۔تجاوزات قائم کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے، کسی جگہ پر دہائیوں سے قابض رہنا اس بات کی ہرگز دلیل نہیں کہ آپ اْس زمین کے مالک بن چکے ہیں۔ ملک میں حال ہی میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں تجاوزات کے خلاف ہونے والے آپریشن سے لوگوں کو یہ سبق تو مل گیا ہے کہ تجاوزات چاہے کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوجائیں انہیں قانونی ہونے کی سند نہیں مل سکتی۔1979ء میں کراچی شہر میں گنی چنی چند کچی بستیاں تھیں جو 40سا ل میں بڑھ کر اتنی زیادہ ہو گئیں کہ آج نالے بھی ان سے محفوظ نہیں رہے۔
اسی طرح اب تک شہر کے بیسیوں پارک، کھیل کے میدان، سرکلر ریلوے ٹریک اور دیگر پبلک مقامات قبضہ مافیا کے پاس ہیں جہاں مکانات، مارکیٹیں بنا کر ان سے کمرشل فائدے حاصل کئے جا رہے ہیںے۔حالات اتنے سنجیدہ ہے کہ غریب کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں اور امیر رہائشی زمینوں کو کمرشلی استعمال کر کے پیسا بنارہے ہیں. عوام دو حصوں میں بٹ گئی ہیں ایک وہ جو دو کمروں کے گھر مسمار ہونے کے ڈر سے رورہی ہے تو دوسری جانب ہزاروں ایکڑ زمینوں پر قبضہ جمائی مافیہ کے وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں میں کوئی حیا نہیں غریبوں کے نام پر زمینے لے کر ان زمینوں کو کمرشلی رجسٹڑڈ کرواکے شادی حال مارکیٹ اور بڑے بڑے مالز تعمیر کرتے ہوئیجنہیں زرابھی غریب کا خیال نہہیں آتا اور جن غریبوں کے نام پر زمین لی گئی وہی غریب انہیں مالز اور مارکیٹ کے باہر بھیک مانگ رہے ہوتی ہیں۔تجاوزات کا خاتمہ ایک ضروری اقدام ہے جسکے خاتمے پر کر کراچی اصل شکل میں واپس آجائیگا۔
یہاں ایک سوال قابلِ غور ہے کہ اگر 40سال پرانے پاکستان کی بات کی جارہی ہے تو کیا آج پاکستان کی آبادی 40 سال جیسی ہے؟ جس طرح آبادی میں اضافہ ہورہاہے اسی طرح حکومت کی موجودہ حکمت عملی بھی ہونی چاہیے کہیں پچاس لاکھ گھر ملنے کا دعوے صرف خواب بن کر تو نہیں رہ جائے گا؟ مکمل تجاوزات گرانے کا اصل مقصد تب پورا ہو گا جب پورا شہر آلودگی اور کوڑے کچرے سے پاک ہوگا اور سڑکوں پر ٹریفک بلاکسی رکاوٹ کے رواں دواں ہو گی۔
گھروں سے محروم لوگوں کی آبادی بہرحال بڑھ رہی ہے جبکہ ہماری پالیسیاں اور ہمارے اقدامات بتدریج اس آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے کترا رہی ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع آئے ہیں جب حکومتوں نے کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے یا پھر چھوٹے دکانداروں کو باقاعدہ لائسنس جاری کرنے کے وعدے کیے ہیں۔ مگر ان وعدوں پر کبھی بھی مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاتا اور اس دوران ہمارے منصوبہ بندی کے نظام میں موجود غریب مخالف تعصب زیادہ سخت ہوتا جاتا ہے جبکہ امیر اپنی مرضی کے مطابق تجاوزات قائم کرنا جاری رکھتے ہیں۔
شہروں کی خوبصورتی ضرور بحال کروائیں لیکن مختلف محکموں میں بیٹھے ان تجاوزات کو قائم کروانے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی جن لوگوں کی دکانیں ختم کی گئی ہیں انہیں متبادل جگہ فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو جلدازجلد یقینی بنایاجائے عوامی مقامات پر تجارت یا رہائش کے لیے قبضہ کرنا ایک مزاحمتی قدم ہے ان اقدامات سے پاکستان کو پاک کرنا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ یہ اقدامات آنے والے وقت میں کارآمد ثابت ہونگے۔