آزادی کی صبح

Allah

Allah

48 ہجری میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ انہوں نے بحری بیڑہ تیار کیا اور قیصر کے دارالسلطنت قسطنطنیہ پر حملے کا مصمم ارادہ فرمایا۔ اس حملے کا مقصد رومیوں کے حوصلے کو اس قدر پست کردینا تھا کہ وہ سلطنت اسلامیہ کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہ کر سکیں۔ چنانچہ مکہ و مدینہ میں بھی منادی کرادی گئی کہ قیصر کی فوج کا رعب و دبدبہ مٹانے کے لیے عنقریب مسلمان لشکر کشی کریں گے۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سن رکھی تھی کہ ”میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا۔” (صحیح بخاری، کتاب الجھاد)

جلیل القدر صحابہ کرام وعدہ مغفرت کے شوق میں آ کر جہاد کے اس لشکر میں شریک ہونے لگے۔ ایک بڑی جمعیت اور سامان حرب و ضرب سے مزین لشکر تیار ہو گیا، جس نے بحری و بری راستے سے قسطنطنیہ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا۔ چونکہ فصیل شہر مضبوط اور شہر کا محل وقوع قدرتی طور پر بے حد مضبوط تھا، لہٰذا لشکر شہر تک رسائی میں کامیاب نہ ہو سکا۔ شدید سردی اور دشمن کی جانب سے کیے گئے دفاعی اقدامات کے باعث مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کیے بغیر واپس چلے آئے۔ لیکن اب آئندہ کے لیے قسطنطنیہ پر حملے کا دروازہ کھل چکا تھا۔ بنو امیہ کے دیگر خلفاء بھی پے در پے قسطنطنیہ پر حملے آور ہوتے رہے۔ 132 ہجری میں خلافت عباسیہ کی بنیاد رکھی گئی، جو قریباََ پانچ سو سال تک بغداد میں قائم رہی۔ عباسی خلفاء بھی برابر رومیوں سے ٹکراتے رہے۔ بنو عباس کے زوال کے بعد 699 ہجری میں سلطنت عثمانیہ وجود میں آئی۔

سلطان عثمان خان قیصر کی فوجوں سے برسر پیکار رہے۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے بھی رومیوں سے جنگوں میں مصروف رہے۔ بالآخر 857 ہجری میں عثمانی خلیفہ سلطان محمد الفاتح کے ہاتھوں قسطنطنیہ فتح ہوا اور قیصر کا تخت اکھاڑ کر یہاں اسلام کا پھریرا لہرادیا گیا۔ مسلمانوں نے ہزاروں قربانیاں پیش کیں۔ سینکڑوں معرکے لڑے۔ کئی قیمتی جانیں رومیوں سے مقابلے میں کام آئیں۔ سخت ترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ وہ اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ آٹھ سو سال تک لڑتے رہے۔ انہیں کامل یقین تھا کہ قیصر کی سلطنت پارہ پارہ ہو کر رہے گی، اور قسطنطنیہ میں اللہ کی کبریائی کی صدائیں گونجنے لگیں گیں۔

Islam

Islam

اس تمہید کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بھارت کشمیریوں کو دبانے کے لیے ہر حربہ آزما چکا ہے۔ انہیں لالچ بھی دیا گیا۔ مراعات بھی دی گئیں۔ جب نہ مانے تو خوف زدہ بھی کیا۔ مارا پیٹا بھی اور قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا گیا۔ لیکن کشمیری اپنے مطالبے سے باز نہ آئے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہم اسلام کی نسبت سے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ ہمیں آزادی دی جائے۔ ہم بھارتی عمل داری قبول نہیں کرتے۔

قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت ہر ہندوستانی ریاست کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے۔ 19 جولائی 1947ء کو سری نگر کے مقام پر ”آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس” نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی۔ لیکن26 اکتوبر کو راجہ ہری سنگھ نے انتہائی عیاری سے کام لیتے ہوئے ” کشمیر بھارت الحاق کی دستاویز” پر دستخط کیے۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں۔ بھارتی فوج نے طاقت کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو محکوم بنانے کی کوشش کی۔ جب پاکستان اور کشمیری عوام نے ردعمل کے طور پر جوابی کارروائی کی تو بھارت نے اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی۔ سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی کہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیری قوم کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔ اس قراداد پر عمل درآمد اب بھی باقی ہے۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھی تنازع کشمیر پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف بھارت سر عام انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے۔ اس وقت دس لاکھ سیکورٹی فورسز مقبوضہ وادی میں تعینات ہیں، گویا کہ ہر کشمیری کے سر پر ایک سپاہی بندوق تانے کھڑا ہے۔ لیکن کشمیریوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ اب بھی پر امید ہیں کہ بھارتی جبر و تسلط کا خاتمہ ضرور ہوگا۔ انہوں نے لاکھوں قربانیاں دیں۔ ہزاروں جانیں گنوائیں۔ لیکن انہیں یقین کامل ہے کہ کشمیر ضرور آزاد ہوگا۔ ان شاءاللہ

Kashmir People

Kashmir People

قسطنطنیہ کی فتح کے لیے مسلمان آٹھ سو سال تک لڑتے رہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی پر ایک صدی بھی نہیں گزری۔ یاد رکھیں قربانیاں رنگ لاتی ہیں۔ شہیدوں کا لہو رائیگاں نہیں جاتا۔ آج نہیں تو کل ضرور آزادی کی صبح طلوع ہوگی۔ لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے ہمارا کردار کیا ہے؟ کیا ہم نے اہلِ کشمیر کے درد کو اپنا درد محسوس کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب آزادی کی صبح نمودار ہو، تو اہالیانِ کشمیر کے لبوں پر یہ شکوہ رہے کہ پاکستان کے ارباب اقتدار ہماری جدوجہد کو بھلا چکے تھے۔ انہوں نے کشمیر کاز کو ہر موقعے پر نقصان سے دوچار کیا۔ اس تنازع کو صحیح سمت میں آگے بڑھانے کی بجائے وہ مذاکرات کی میز تک محدود رہے۔ اب بھی وقت ہے اس مقدمے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جائے۔ تاکہ کشمیریوں کی درینہ خواہش پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔

تحریر: فاروق اعظم