تحریر : خالد پرویز بٹ 11 فروی 1984 تہاڑ جیل دہلی میں مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد ہر سال اس روز ریاست کی آزادی و خودمختاری کے حامی کشمیری ریاست کے اندر اور دنیا بھر میں”روشنی کے اس شہید اول “عظیم شہید کی برسی پوری عقیدت و احترام سے مناتے ہیں نثر نگار مضامین لکھتے ہیں شاعر شاعری لکھتے ہیں اور سیاسی کارکنان اور لیڈر شہید مقبول بٹ کے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے وطن کی آزادی کیلئے تختہ دار پر جھول جانے کا عزم دہراتے ہیں۔
سامراجی قوتوں اور ان کے ایجنٹوں نے مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ اب کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد کو ترک کر دیں گے لیکن سامراج کی اپنی سوچ ہوتی ہے جبکہ شہادتیں تاریخ کے دامن میں عارضی اور غیرمستقل مزاج واقع نہیں ہوتیں بلکہ شہادتیں آنے والے دور میں شعور و آگہی کو ابھارتی ہیں شہادتیں آزادی پسندوں کوشہید ہونے کا درس دیتی ہیں شہادتیں تحریکوں کوجنم دیتی ہیں شہید زندہ ہوتا ہے کیونکہ وہ شہید ہو کر تاریخ کے صفحات میں دائمی حیات حاصل کر لیتا ہے شہادتیں کسی قوم کے اجتماعی شعور اور خودداری کی عکاسی کرتی ہیں شہید شہادت کے بعد ایک سوچ بن کر قوم کے اجتماعی شعور کی آبیاری کرتا ہے۔مقبول بٹ کی روح آج بھی سامراجی قوتوں اورانکے ایجنٹوں کے اعصاب پر خوف کے سائے کی طرح منڈلا رہی ہے جس سے وہ پیچھا چھڑانے کی جتنی بھی کوشش کر لیں یہ سایہ انکا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
مقبول بٹ 1938 کو ضلع کپواڑہ کے قصبے ترہگام گاؤں کے ایک کسان غلام قادر بٹ کے ہاں پیدا ہوئے سری نگر یونیورسٹی سے بی ۔اے اور پشاور یونیورسٹی سے ایم ۔اے کیا مادروطن کی تقسیم اور ہم وطنوں کی غلامی نے اس کی زندگی میں بے چینی اور بے قراری پیدا کی کیونکہ وہ محکومی کو پرامن طور پر برداشت کرنے کو مجموعی زندگی کا عظیم اخلاقی جرم قرار دیتا تھا اس لیے وہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ کہا کرتا تھاکہ “بہترین موت وہ ہے جو انسانوں کو ظلم و جہالت سے نجات دلاتے ہوئے آئے”بس اس نے پھر اپنے لیے اسی موت کا انتخاب کیا اور ایک باشعور بطل حریت دھرتی ماں کی حرمت پر قربان ہوگیا سچ کو زیادہ دیر تک دبا کر رکھا نہیں جا سکتا تقسیم ہند کے وقت قائد اعظم اور مہاراجہ ہری سنگھ کے درمیان ایک ثالث کے ذریعہ ریاست کو خودمختار رکھنے کے حوالے سے بہت سے معاملات طے پاچکے تھے لیکن کشمیر پر قبائلی حملے نے بھارتی تسلط کی راہ ہموار کی اور اس طرح بھارت کو بھی 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں اپنی فوجیں اتارنے کا جواز مل گیا اور اسطرح ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور محکومیت کا آغاز ہوا۔
Indian Forces killing in Kashmir
بھارت تب سے بندوق کی نوک اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے غیر قانونی قبضے کو جاری رکھے ہوئے ہے غیراخلاقی قبضہ کبھی بھی مستقل بنیادیں حاصل نہیں کر سکتا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ہونے کا دعویدار بھارت آج کشمیری قوم کی نسل کشی اور جنت ارضی کے حسن کو تاراج کر رہا ہے نام نہاد مہذب دنیا اور اقوام عالم کو کشمیریوں کا خون ،آہیں ،غم ،سسکیاں، قتل عام اور تحقیر نظر نہیں آتیں۔
پاکستان کی سیاست کا محور اسلام اور کشمیر ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان پر قابض جاگیردار، صنعت کار، سرمایہ دار اوربد عنوان سیاستدانوں کے ٹولے نے اسلام کیساتھ وفا کی اور نہ ہی کشمیریوں کیساتھ ،وفا ان کیلئے شجر ممنوعہ ہے۔ جن مسلمان حکمرانوں نے پاکستانی عوام کو گولیوں سے چھلنی کیا مہنگائی کے ہاتھوں خود کشیوں پر مجبور کیا تعلیم کو غریب آدمی کیلئے ناممکن بنا دیا جن مسلمان حکمرانوںنے اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو بے لگام اور بے باک کرپشن کا گڑھ بنا دیا ان مسلمان حکمرانوں نے اپنی مسلمان پاکستانی رعایا کوکیا دیا۔ہاں دیا ہے ضرور دیا ہے وہ ہے غیرملکی بنکوں سے قرضہ جو اقساط نسل در نسل وہ ادا کر تے رہیں گے۔ ایسے مسلمان حکمرانوں کی مسلمانیت سے کشمیری کیا فیض یاب ہوتے بلکہ انہوں نے کشمیریوں پر غلامی کی تاریکی کو طوالت دی۔
24اکتوبر 1947 کوقائم ہونیوالی حکومت اگر آزادانہ کام کرتی مسلم کانفرنس جنس خرید نہ بنتی تومسلہ کشمیر حل ہو چکا ہوتا پر تیعش محلات میں رہنے والوں کو کیا پتہ بیٹا کھو جانے کا غم کیا ہوتا ہے ،بے گھر ہو جانے کا قلق کیاہوتا ہے لیکن دھاندلی کے ذریعے ووٹ لینے والوںنے اسلام ،جمہوریت اور کشمیریوں کیساتھ کھلواڑ کیا فیصلے کے اختیار جیسی امانت میں ہمیشہ خیانت کی ۔1974سے 1984 تک قید رہنے والا مقبول بٹ انہی معاشرتی نقائص ،برائیوں ،تسلط اور جبرواستبدار کیخلاف بغاوت کا نام ہے 11 فروری 1984 کو سولی پر چڑھ کر بھی اس نے قید کو پسند کیا اور طویل ترین قید ریاست کے اس ہیرو کا مقدر ٹھہری مقبول نے صرف دو چیزوں کاپیغام دیا ہے عزت سے جیو یا پھر باطل سے ٹکرا کر شہید ہوجاؤ اس کا کردار ہمیشہ صاف وشفاف رہا ہے اس نے ہمیشہ جہالت ،دولت پسندی ،استحصال ،جبر ،غلامی اور منافقت کیخلاف بغاوت کا ہی قوم کو درس دیا ہے۔
Maqbool Butt
قوموں میں ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں مقبول بٹ مزاحمت اور بغاوت کا ثبوت اور استعارہ ہے تحریک آزادی کشمیر کی روح ہے مقبول بٹ نے زندگی کے انتہائی اہم مرحلے میں اپنی زندگی وطن پر قربان کرکے آنے والی نسلوں کو یہ درس دیاکہ آزادی دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے مقبول بٹ اپنی زندگی خوشحال گزار سکتا تھا لیکن اس نے اپنی زندگی مادروطن کی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کیلئے وقف کردی لیکن اقتدار کے پجاریوں نے مقبول بٹ شہید کے ویژن سے پہلو تہی کیے رکھی۔
حق کو جتنا دبایا جائے وہ اتناہی ابھرتا ہے حق کی قوتوں ،عوامی حقوق ،خودداری ،عزت نفس اور آزادی کا علمبردار مقبول بٹ شہید اتناہی مقبول عام اور عالمگیر ہوتا جا رہا ہے جتنا اس کوگمنام اور محدود کرنے کی سازشیں کی جاتی رہیں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے اور مقتدر قوتوں سے سازباز کرکے عزت نفس سے تہی اور عارضی اقتدار حاصل کرنے والے اپنے ضمیر کے مجرم اور دائمی گمنامی کاشکار ہیں لیکن ظلم وجہالت اور غلامی میں جکڑی ہوئی کشمیری قوم کادرد مند راہنما تاریخ کے آسمان پرخورشید کی طرح دمک رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حق اور مظلومیت کے حامی حیات جاوداں پاجاتے ہیں اور انکی شہادتیں وقتی طور پر معمولی واقعہ خیال کی جاتی ہیں لیکن بعد میں اس کے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں مجھے قوی یقین ہے کہ مقبول بٹ شہیدکی شہادت سے ابھرنے والا شعور ہندوستان کو بھی بالآخر کشمیر چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔
کہاں تو سویا خبر نہیں خبر نہیں قبر نہیں مگر یہ بندے نثار تیرے کروڑ دل ہیں مزار تیرے
khalid Pervaiz Butt
تحریر : خالد پرویز بٹ صدر کشمیر فریڈم موومنٹ kpbutt786@gmail.com