پاکستان سے چلے تو ہمیں بتایا گیا کہ آجکل ہیوسٹن کا موسم کم وبیش پاکستان کے موسم جیسا ہی ہے اِس لیے ہم نے گرم کپڑوں کو اضافی بوجھ سمجھ کر وہیں چھوڑ دیا لیکن جونہی ہیوسٹن کے ایئر پورٹ پر اُترے تو یخ بستہ ہواؤں نے استقبال کیا۔ اگر پاکستان سے گرماگرم خبریں نہ آتیں تو ہماری قلفی ہی جم گئی ہوتی۔ تازہ ترین خبر یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی کو بھی ”پھڑکا” دیا۔ کپتان تو پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ نوازلیگ کی ایک بڑی وِکٹ گرنے والی ہے لیکن ہم ہی نہ سمجھ سکے ۔ ہماری ارسطوانہ سوچ کا محور چودھری نثار علی خاںہی رہے کیونکہ بڑے بڑے نامی گرامی تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھا، ہم بھلا اُن کے تجزیوں سے اختلاف کی جرأت کیسے کر سکتے تھے ۔لیکن جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے 25 اپریل کو خواجہ آصف کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ بڑی وِکٹ خواجہ آصف ہی کی ہو سکتی ہے کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کسی بھی صورت میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے سے مختلف فیصلہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا اورخواجہ صاحب گھر سدھارے۔ اُنہیں بھی آرٹیکل 62 وَن۔ایف کے تحت تا حیات نااہل قرار دیا گیا ہے۔
خواجہ صاحب کی نااہلی کے بعد چار سیاسی جماعتیں بدل کر تحریکِ انصاف میں وارد ہونے والے ایک ضمیر فروش نے کہا ”اب دیکھنا یہ ہے کہ خواجہ آصف ٹریکٹر پر بیٹھ کر سیالکوٹ جاتے ہیں یا ٹرالی پر بیٹھ کر”۔ خواجہ صاحب تو جیسے تیسے سیالکوٹ پہنچ ہی جائیں گے لیکن اُن پر کم از کم ضمیرفروش یا ”لوٹا” ہونے کا تو الزام نہیں۔اُس ضمیرفروش کے اِس بیان پر یہی کہا جا سکتا ہے ”چھاج بولے تو بولے، چھلنی بھی بولتی ہے”۔ سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے سیاسی حریف عثمان ڈار نے کہا کہ اِسی اقامے کی بنیاد پر ساٹھ، سَتّر لوگ اور بھی جائیں گے جبکہ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضٰی کا خیال تھا کہ اسمبلیوں میں ایک ہزار سے زائد لوگ بیٹھے ہیں، اِس اقامے کی بنیاد پر کم از کم آدھے لوگ تو جائیں گے ہی۔
ویسے پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے بڑی دردناک۔ ہم چُن چُن کے ”ہیرے موتی” اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں لیکن ہر دَس بارہ سال بعد وہ آسمانی آفت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اِس آفت کو عرفِ عام میں ”آمریت” کہا جاتا ہے۔ ہم لاکھ کہیںکہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے لیکن حقیقت یہی کہ ہمارے ہیرے موتی جونہی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، گِرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں۔ بَرسرِ اقتدار جماعت کی ٹانگیں کھینچنا اور اُسے کام سے روکنا اپوزیشن کا فرضِ عین ٹھہرتا ہے۔ پھر جوتیوں میں دال بٹنے لگتی ہے اور سیاسی لڑائی ذاتی مخاصمت میں ڈھل جاتی ہے۔ ایسے میں کوئی ”آمر” اُٹھتا ہے اور سب کو کان سے پکڑ کر نکال باہر کرتا ہے۔ جب سات عشروں سے یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے تو پھر اِس میں ہماری ”بی بی آمریت” کا کیا قصور؟۔ اب بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں، تاریخ وہی سب کچھ دُہرا رہی ہے جو ہم بچپن سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا کیونکہ ہمارے یہ رَہنماء سدھرنے والے نہیں۔
اب 29 اپریل (آج) عمران خاں ایک دفعہ پھر سونامیوں کو اکتوبر 2011ء کی یاد دلانے جا رہے ہیں۔ 2011ء میں مینارِپاکستان کے سائے تلے ہونے والا تحریکِ انصاف کا جلسہ یادگار تھا جس میں پورے پاکستان سے سونامیوں نے شرکت کی۔ یہ جلسہ کپتان کی چھ ماہ کی محنتوں کا ثمر تھا۔ اُس جلسے کے بعد کپتان ”جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے”۔ دھوم دھڑکا ہوتا رہا اور والہانہ ڈانس بھی لیکن کرسیاں بھی لوٹی جاتی رہیں اور افراتفری کے عجب نظارے بھی دیکھنے کو ملتے رہے۔سونامیے ڈی جے کی دُھنوںاور ابرارالحق کے گیت(اَج میرا نچنے نوں جی کردا) پر والہانہ رقص کرتے رہے جبکہ کپتان اِس غلط فہمی میں کہ یہ سارا اُن کی شخصیت کا سحر ہے۔ اِسی لیے اُنہوں نے ہر کہ ومہ کو کہنا شروع کر دیا کہ وہ دوتہائی اکثریت لے رہے ہیں۔ جب نتیجہ آیا تو معلوم ہوا ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا”۔ ظاہر ہے کہ کپتان کے لیے یہ ناکامی اور بُری ہزیمت ہضم کرنا مشکل تھا اِس لیے اُنہوں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر تب سے اب تک جو کچھ ہوا ،وہ تاریخ ہے، البتہ ایک بات ضرور کہ آج جس عدلیہ کے وہ بزعمِ خویش محافظ بنے بیٹھے ہیں، اُسی عدلیہ نے انتخابی نتایج کو شفاف قرار دیا جنہیں کپتان آج بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
آج کپتان پھر محفل جمانے والے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ سے اِس جلسے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کپتان برطانیہ سے پیسہ اکٹھا کرکے بھی لے آئے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر پیسے کے زور پر کپتان پچاس ساٹھ ہزار یا ایک لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا اِس مجمعے کے بَل پر وہ 2018ء کے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں کئی لاکھ کارکُن شریک ہوتے ہیں اور تین دنوں تک اپنے پاؤں کی مٹی تک نہیں چھوڑتے۔ اگر عوامی شرکت کو بنیاد بنایا جائے تو پھر جماعتِ اسلامی کو تو سب سے زیادہ کامیابی ملنی چاہیے لیکن ہوتا اِس کے برعکس ہے۔پھر یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ تحریکِ انصاف کے اِس جلسے میں کتنے ”لاہوری” شریک ہوتے ہیں۔اگر لاہوریوں نے کپتان کو بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہا تو پھر سوچا جا سکتا ہے کہ کپتان کی مقبولیت بڑھی ہے ۔ بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیوں کہ تمام سرویز آج بھی نوازلیگ کو مقبول ترین جماعت اور میاں نوازشریف کو مقبول ترین لیڈر قرار دے رہے ہیں۔ کم وبیش یہی صورتِ حال 2013ء کے عام انتخابات میں تھی جس میں نوازلیگ نے عظیم الشان کامیابی حاصل کی۔ البتہ اب کی بار صورتِ حال ذرا مختلف ہے۔
اب صاف نظر آ رہا ہے کہ نوازلیگ کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔ نیب اور عدلیہ نواز لیگ کے ارکان کے پیچھے لَٹھ لے کر دوڑ رہی ہیںاور خفیہ ہاتھ بھی متحرک ہیںجسے دیکھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نوازلیگ بہت سی مشکلات میں گھِر چکی ہے۔ اِس کے باوجود ہمیں یقین کہ نوازلیگ پنجاب میں کم از کم 80 سیٹیں تو لے ہی اُڑے گی۔ باقی صوبوں کی سیٹیں ملا کر اگر نون لیگ حکومت نہ بھی بنا سکی تو پھر بھی اتنی مضبوط اپوزیشن سامنے آئے گی کہ حکمران ”وَخت” میں پڑے رہیں گے اور ہمیں ایک دفعہ پھر ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” جیسا ماحول نظر آئے گا۔ سوال یہ کہ کیا اربوں روپے اور بہت سا وقت صرف کرنے کا مآل یہی ہے کہ رَہنماء سیاست سیاست کھیلتے رہیں اور قوم ٹھوکریں کھاتی پھرے؟۔ اگر یہی ہمارا مقدر ٹھہرا تو پھر”اصلی تے وَڈا”مارشل لاء نہ سہی ، جوڈیشل مارشل لاء ہی سہی کہ اِس میں پیسے کا زیاں ہوتا ہے نہ وقت کا۔