تحریر: انجینئر افتخار چودھری یہ ہیں احسن رشید پٹھان کوٹی ارائیں جو لاہور کے ماتھے کا جھومر بنے۔انگلینڈ میں رہے تو پاکستان کا سوچتے رہے جدہ میں پاکستانیوں کے چھتر چھایا رہے ہم دوستوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جنہیں اللہ نے شوکت خانم،بلوچستان کی خشک سالی اور نادار بچوں کے لیء تعلیمی ادارے بنانے کا موقع دیا۔عمران خان کے ساتھی بنے تو آخر دم تک ساتھ دیا۔تحریک انصاف پنجاب کے صدر بنے تو پارٹی کے لئے جان لڑا دی۔ شوکت خانم کے بجھتے چراغ کے لیئے تیل کا کام کیا۔
ساری عمر تیل کی انڈسٹری سے منسلک رہے۔فوکس پٹرولیم کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا۔ان پاکستانیوں کے سرخیل تھے جنہوں نے آسائشوں کی زندگیوں کو تج کر جد و جہد کے راستے اپنائے۔آج ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا۔کینسر ہسپتال کا سپانسر کینسر کے ہاتھوں مارا گیا۔کارکنوں کے دل کی دھڑکن۔ بیس سال سے میری ان سے شناسائی تھی۔شاہراہ دستور پر عمران خان کا ہاتھ تھاما اور میرے ہاتھ کو ملواتے ہوئے ہمیں اس کٹھن راسے کا مسافر بنا دیا جس پر چلتے چلتے اس دنیا سے اس دنیا میں چلے گئے۔
احسن رشید اب اس دنیا میں نہیں رہے یقینا ان کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بن گئی ہو گی۔خاص طور پر ان فیملیوں کے ہزاروں ممبر جن کے بے روز گار لوگوں کو نوکریاں دیں۔ احسن رشید آج ہم میں نہیں۔جدہ کا یہ سپر سٹار لاہور کی گلیوں مین دم توڑ گیا۔اسے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ نہ مل سکی لیکن اللہ میاں نے اسے اپنے ہاں بلا لیا اس لیئے کہ وہ ہمارے قابل تھا ہی نہیں۔پنڈی آنا تھا لاہور سے نکلے تو فون کیا کہ بھائی میرے غریب خانے آنا کہنے لگے یار لوگ بہت ہوں گے کہا اللہ دے گا۔یاروں کا یار تھے۔ایک بار فون کیا جدہ ہو میں پنڈی جا رہا ہوں میں تین روز کے لئے آ گیا پنڈی میں پذیرائی کی ۔کہنے لگے افتخار اتنا پیار جواب دیا ملا بھی تو ہے۔
Elections
٢٠١٢ میں شیرٹن جدہ میں خان صاحب نے انٹرا پارٹی الیکشن کا ذکر کیا تو میری اور احسن کی رائے تھی کہ سر پھٹول ہو گی۔خان صاحب کا کہنا تھا کہ کارکن اپنے الہڈر آپ چنیں گے اس سے بہتری آئے گی۔آج بھی اس پراسس پر دو رائے ہیں۔اب سوچتا ہوں اگر ایسا ہوتا تو کارکن کہاں جاتے اب جو تھوڑے بہت ایسے لوگ پارٹی میں آ گئے ہیں انشا اللہ آئیندہ الیکشنز میں صاف ہو جائیں گے۔ جدہ میں نادار بچوں کے اسکول بنوائے خشک سالی میں ہم اکٹھے تھے۔علی ذوالقرنین خان اب اس کار خیر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔احسن ایک سال پہلے ہمیں چھوڑ گئے۔پاکستان کے لوگوں کی بد قسمتی رہی ایک جگنو سورج چاند ستارہ جس نے شوکت خانم کو بند ہونے سے بچایا خود کینسر کے مرض سے اس دنیا سے چلا گیا۔
سستی روٹی کے تندور شروع کئے تو بتانے لگے میں نے شہباز شریف کو فون کیا کہ ہمیں آٹے کی خاص قیمت دیں تا کہ ہم بغیر نفع نقصان پر اس کو چلا سکیں کہنے لگے انہوں نے تفصیل مانگی تو دوسرے دن اخبارات میں خبریں آ گئیں کہ پنجاب حکومت سستی روٹی تندور شروع کر رہی ہے۔ احسن رشید میرے بچوں کی شادی میں نہیں آ سکے میں نے گلا کیا کہ یار میں سردیوں کی رات میں لاہور آیا آپ کو ہمت نہ ہو سکی چھوٹی سی بیماری کا بہانہ بنا لیا۔آواز بھراء گئی کہنے لگے کاش یہ چھوٹی بیماری ہوتی۔اچھے لوگوں کی اس جہان میں بھی ضرورت ہے اسی لئے وہ چلے گئے۔ اپنے ساتھیوں کو اتنے پیار سے بلاتے کہ سننے والا سمجھ لیتا کہ وہ اسی کے دوست ہیں۔٢٠١٢ مین میں نے جدہ ایئر پورٹ پر خان صاحب اور احسن بھائی کو قلم دیے کہنے لگے یار صحافی تم ہو رکھ لو اور انصاف کے لئے لکھتے رہنا۔
خان صاحب کی فلائٹ رات دوبجے اسلام آباد پہنچ رہی تھی ادھر جدہ سے میں نے رخصت کیا اور یہاں اسلام آباد میں نوید شکیل دلدار میرے بیٹے موجود تھے۔خان صاحب کو بتایا افتخار کے بیٹے ہیں قائد بہت خوش ہوئے اور کہا کہ افتخار کے بچے ہیں ہمارا اثاثہ ہیں۔احسن بھائی بے شمار لوگوں کی خفیہ طریقے سے مدد کرتے تھے۔
Pakistanis
جدہ میں ایک ہمارے دوست سردار رحمت خان ہوا کرتے تھے جو دوسال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں انہوں نے بھی اسکول بنائے فلاح کے کام کیئے اللہ نے مجھے دوستوں کا ایک ایسا حلقہ دیا جس نے ویلفیئر کے کام کیئے پاکستانیوں کو نوکریاں دلوائیں۔یہی کچھ ہم کیا کرتے تھے تھے۔ایک بار بلوچستان میں خشک سالی سے قیامت آن پڑی ایسے میں سفارت خانے خاموش تھے اور احسن رشید نے ابرارالحق کو جدہ بلوا کر فنڈ ریزنگ کی۔سچ لکھوں تو شائد لوگ ناراض ہوں گے اس پارٹی کے بانی ممبر ہونے کے ناطے انہیں جتنا درد تھا میں نے انہی کے بانی اراکین دوستوں میں دیکھا ۔میں یہاں نعیم الحق کا ذکر بھی کروں گا سیف نیازی اور عامر کیانی کا بھی جو بہت پرانے ساتھ ہیں لیکن جو رنگ احسن میں تھا وہ سب سے سوا تھا۔
آج پارٹی میں انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں یقین کیجئے احسن ہوتے تو خان کبھی اکیلا نہ ہوتا۔وہ اپنے لیڈر اور دوست کو جانتا تھا۔جدہ میں خان نے تقریر کی میں چاہتھا کہ وہ میزبان کی حیثت سے بات کریں کہنے لگے افتخار یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے لیڈر کے بعد بولوں۔ پاکستان سے فون کر کے لوگوں کی نوکریوں کی سفارش کیا کرتے۔مجھے اللہ نے ہمت دی ان گنت لوگوں کو ملازمتیں دیں۔کوشش کی زندگی میں جھوٹ نہ بولوں مگر سچ پوچھیں کسی کی نوکری کے لیئے میں جھوٹ بولتا رہا۔یہی کام بے شمار لوگ کرتے ہیں جنہیں درد ہے پاکستان کا۔احسن رشید کو اللہ نے بہت کم وقت دیا۔
بس اتنا ہی کہوں گا بھائی جلدی کر دی وقت ملے موقع ملے ہو سکے تو لوٹ آنا
کان درد بھری محبت بھری آواز کو ترس گئے ہیں۔اچھے لوگوں کی کمی نہیں مگر تم سا کاش تم سا کوئی مل جائےاب لاہور جاتا ہوں تو بھاگ آتا ہوں۔نہر کنارے پالمز کلب کے کھانے بچوں کا نام لے لے کر پوچھنا میرے دوستوں میں ا سے پیار سے پوچھتے ہیں رو ء ف طاہر ہیں اشرف طاہر ہیں خالد منہاس ہیں مگر لاہور میں احسن رشید نہیں ایسا لگتا ہے لاہور کے سر کی ٹوپی چھن گئی۔بیماری میں نوید کئی بار لاہور گیا اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار جتلایا۔پھر کہوں گا جنت مکانی اس دنیا کا دوزخ تجھ جیسوں کا متلاشی ہے جو اپنے وجود سے اس کی آگ کو ٹھنڈہ کر دے۔ہو سکے تو لوٹ آنا او جانے والے رے