ملتان (علی عمران ممتاز) ملتان پانچ ہزار سالہ قدیمی شہر ہے، جسے مدینة اولیاء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس شہر میں 3000ہزار سے زائد اولیاء اللہ مدفن ہیں ۔ملتان کی ایک پہچان اور وجہ شہر ت ملتانی سوہن حلوہ بھی ہے۔دور دراز سے آئے لوگ جب اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں تو ملتان سے یہ خاص تحفہ بھی لے کر جاتے ہیں کیونکہ ملتان آئیں اور ملتانی سوہن حلوہ نہ لے جائیں ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ملتان کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ علم وادب سے اِس کی مٹی بڑی زرخیز ہے ۔بڑے بڑے ادیب و شاعر ملتان کی سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں ملتان میں باقاعدہ طور پر ایک ٹی ہاوس بھی قائم کیا گیا ہے جس میں علمی و ادبی حلقے اپنے اجلاس ،ادبی بیٹھکیں اور سالانہ سیمینار منعقد کرتے رہتے ہیں۔
4ستمبر 2016ئبروز اتوار کی صبح چشتیاں سے آئے”شاعر محقق،علی حسنین تابش اور اکرم ریاض ساڑھے سات بجے ملتان ٹی ہاوس کی عمارت کے سامنے کھڑے تھے ۔یہ حضرات ملتان میں منعقدہونے والے نیشنل رائیٹرز کنونشن میں شرکت کے لئے چشتیاں سے تشریف لائے تھے ۔یہ نیشنل کنونشن اُمید روشنی فورم پاکستان ،تعمیر ادب فورم پاکستان ،بچوں کا پرستان کے اشتراک سے اور پاکستان چلڈرن میگزین سو سائٹی ،اکادمی ادبیات اطفال ،ادارہ تحقیق ادب اطفال ، وفائے پاکستان ادبی فورم ،سہ ماہی بچے من کے سچے ،ماہنامہ بزم منزل اور ماہنامہ کرن کرن روشنی کے تعاون سے ملتان ٹی ہاوس میں منعقد ہو رہا تھا۔
ملتان ٹی ہاوس کی پُر کشش عمارت کے بالائی حصے پر خوبصورت ہال کے باہر رجسٹریشن کے مراحل سے گزرنے کے بعد نوجوان اہل قلم ہال کے اندر موجود نشستوں پر بیٹھ رہے تھے ۔رجسٹریشن انتظامیہ میں ہارونہ آپی اور فاروق حسن اپنے فرائض بہترین انداز میں سر انجام دے رہے تھے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے سے دس بجے تک رجسٹریشن کا عمل جاری رہا۔دس بجے تک ہال بچوں کیلئے لکھنے والے نوجوان اہل قلم خواتین و حضرات سے بھر چکا تھا ۔ہال میں کتاب میلہ کا بھی انعقاد کیا گیا تھا ۔افسانہ نگار مجیداحمد جائی اور عبدالرحمن رزاقی نے کتاب میلہ کا چارج سنبھالا ہوا تھا۔
پاکستان کے معروف قاری القراء اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مسجد کے امام و خطیب قاری سجاد نقشبندی نے اسٹیج پر آکر تلاوت کلام پاک پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔تلاوت کا آغاز ہوتے ہی تمام اہل قلم اسٹیج کی طرف متوجہ ہوئے ،اور تلاوت کلام پاک سے دلوں کو منور کرنے کی سعادت حاصل کی ۔تلاوت کلام پاک کے بعد حضور اکرم ۖ کے لئے نعت رسول مقبول ۖ کی صورت میں گلہائے عقیدت معروف نعت خواں مشتاق احمد چشتی نے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔نعت کے بعد قومی ترانہ ہال میں گونجاتو سبھی اہل قلم اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ادب سے قومی ترانہ سُنا۔
قومی ترانہ کے بعد کاشفہ امان اسٹیج پر تشریف لائیں اور اُنہوں نے نظامت کے فرائض سنبھالتے ہوئے نیشنل رائیٹرز کنونشن کے انعقاد کا مقصد بیان کیا اور ملک بھر سے آئے اہل قلم کا شکریہ ادا کیا اور اُنہیں ملتان شریف آمد پر خوش آمدید کہا۔کنونشن کو مزیذ آگے بڑھانے کے لئے اُنہوں نے کرن کرن روشنی کے چیف ایڈئٹر جناب علی عمران ممتاز اور عبدالصمد مظفر المعروف ”پھول بھائی ”کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔
باقاعدہ طور پر نظامت کے فرائض سنبھالتے ہوئے علی عمران ممتاز اور عبد الصمد مظفر اسٹیج پر تشریف لائے اورکنونشن کے پہلے سیشن کا آغا ز کیا۔پہلے سیشن کی صدارت معروف ماہر تعلیم و تجزیہ نگار جناب پروفیسر حمید رضا صدیقی نے کی ۔مہمان خصوصی محمد شعیب مرزا(ایڈیٹرپھول و صدرپاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی )،حافظ مظفر محسن (معروف مزاح نگار،چیئرمین اکادمی ادبیات اطفال )،مظہر کلیم ایم ۔اے(معروف ماہر قانون و مصنف عمران سیریزتھے جبکہ مہمان اعزازمیں حاجی محمد لطیف کھوکھر (ایڈیٹر ماہنامہ کرن کرن روشنی و سرپرست وفائے پاکستان ادبی فورم )،امان اللہ نیئر شوکت (مدیر اعلیٰ بچوں کا پرستان )،نیئر رانی شفق (صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعرہ ،ماہر تعلیم )تھے۔امان اللہ نیئر شوکت نے افتتاحی کلمات پیش کیے ۔اُن کے بعد مزاح پر مشتمل ڈرامہ ”جعلی پروڈیو سر” اظہر سپل ،ظفر اقبال ،ساجد سندھی ،امتیاز بشیر،شہزاد ملک نے پیش کیا اور حاضرین محفل کو ہنسا ہنسا کر خوب داد وصول کی۔
انٹرنیٹ کی افادیت و نقصانات کے موضوع پر نیئر رانی شفق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بٹن کی ایک کلک کی دوری پر انٹرنیٹ کے ذریعے دُنیا کی ہر معلومات ہماری دسترس میں ہے ۔انٹرنیٹ کی دُنیا بہترین چیز اور نعمت عظیم ہے ۔دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاکھوں پاکستانی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔اس کی افادیت سے ہرگز انکار ممکن نہیں مگر اِس کے غلط استعمال سے دُنیا میں جو تباہی پھیلائی جا رہی ہے اس سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔
بچوں کے ادب میں مزاح نگاری کے موضوع پر حافظ مظفر محسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بچوں کے ادب میں مزاح نگاری بہت کم ہے ۔زیادہ تر سنجیدہ ادب تخلیق کیا جا رہا ہے ۔آج کے دور میں ہمارے بچوں کو جو کارٹون ڈورے مون دکھائے جاتے ہیں وہ کسی حد تک ہماری بچپن میں موجود کہانیوں کی طرح کے ہی ہوتے ہیں مگر ہمیں چاہیے کہ مزاح کو بھی بچوں کے ادب میں خاصی توجہ دینی چاہیے ۔یہ اُس وقت ممکن ہے جب اہل قلم مزاح نگاری کی طرف توجہ دیں گے ،علی عمران ممتاز ،عبداللہ نظامی اور امان اللہ نیئر شوکت نے ملتان میں یہ تقریب منعقد کرکے علم و ادب سے گہری دلچسپی کا ثبوت دیا ہے۔
کہانی کی اشاعت بارے محمد شعیب مرزا نے کہا اکثر لکھاری حضرات کہانی صفحہ کے دونوں طرف لکھتے ہیں یا پھر کہانی کے آخر میں اپنا مکمل پتہ و فون نمبر بھی لکھنا بھول جاتے ہیں یا پھر چھوٹے چھوٹے کاغذوں پر کہانی یا دوسری تحاریر لکھ کر ارسال کرتے ہیں ۔یہ تمام طریقے اُن کی تحریر کو میگزین میں چھپنے سے روک دیتے ہیں ۔کہانی لکھنے کے بعد اچھی طرح کہانی کو تسلی کر لینی چاہیے کہ یہ تمام غلطیاں اگر ہیں تو درست کیا جائے۔حاجی محمد لطیف کھوکھر نے کہا وفائے پاکستان ادبی فورم اور کرن کرن روشنی ہمیشہ بچوں کے ادب کے فروغ میں محبتیں بانٹنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے گا۔اس سیشن میں بچوں کا پرستان ایوارڈ محمد نادر کھوکھر ،نذیر انبالوی ،حیات خان نیازی،کاشفہ خان ،عبدالصمد مظفراور میجر (ر) نیئر شوکت انصاری کو دیا گیا۔
مظہر کلیم ایم ۔اے نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ علی عمران ممتاز نے کم عمری میں بڑوں سے بھی بڑا کام کر دکھایا ہے اور ملتان میں نوجوان اہل قلم کے لئے ”نیشنل رائیٹرز کنونشن ”کا انعقاد کر ڈالا۔میں ابصار عبدالعلی ، عبداللہ نظامی ،محمد شعیب مرزا،حافظ مظفر محسن ،امان اللہ نیئر شوکت اور پروفیسر حمید رضا صدیقی کا مشکور ہوں کہ وہ اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
قیام امن میں ادیبوں کا کردار کے موضع پر پروفیسر حمید رضا صدیقی نے اپنے صدراتی خطاب میں کہا جب بھی ملک میں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے ۔ادیبوں نے اپنے قلم سے ایسی شاہکار تحاریر لکھیں جن پر ہوش سے کام لینے اور صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔قیام امن میں ادیبوں نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا پہلے سیشن کے اختتام پر شرکاء کو جوس پلایا گیا ۔اِس دوران شرکاء نے کتاب میلہ سے ڈھیروں کتابیں بھی خریدیں ۔جس سے کتاب دوستی کا ثبوت ملتا ہے ۔مجیدا حمد جائی اور عبدالرحمن رزاقی خوش اخلاقی سے کتابیوں کے بارے معلومات دیتے رہے۔
پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔تلاوت کلام پاک قاری محمد جاوید (پہلی پوزیشن انٹرنیشنل یونیورسٹی مقابلہ)کی سعادت حاصل کی ۔اس کے بعدنعت رسول مقبول ۖحافظ فیضان الرحمن نے پیش کی۔اُن کی آواز نے حاضرین کو اپنے سحر میں قید کر لیا۔دوسرے سیشن کی صدارت ابصار عبدالعلی (پاکستان کے پہلے نیوز کاسٹر،ڈائریکٹر حمید نظامی انسٹی ٹیوٹ) نے کی۔جبکہ مہمان خصوصی میں پروفیسر حمید رضا صدیقی ،محمد شعیب مرزا،حافظ مظفر محسن اور مظہر کلیم ایم ۔اے تھے۔مہمان اعزاز میں جناب شاکر حسین شاکر (کالم نگار) ، رضی الدین رضی(کالم نگار) ، سلیم ناز (میگزین ایڈئٹر نوائے وقت ملتان) ، خواجہ مظہر نواز صدیقی (کالم نگار)، عبداللہ نظامی (چیف ایڈیٹر تعمیر ادب لیہ)تھے۔
کُتب بینی سے دوری کیوں ؟کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جناب شاکر حسین شاکر نے کہاالیکٹرنک میڈیا اور سو شل میڈیا نے بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔بچے سارا دن یا تو کارٹون دیکھتے رہتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر دن بھر کی کارگردگی بناتے نظر آتے ہیں ۔بچے تو بچے بڑے بھی کتب بینی سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔والدین کو چاہیے کہ نصابی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی بچوں کو فراہم کریں ۔ہر ماہ ایک کتاب خرید کر گھر لائیں اور بچوں کو پڑھنے کے لئے دیں۔
بچوں کے ادیبوں کے لئے مطالعہ کی اہمیت کے موضوع پر رضی الدین رضی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔بچوں کے ادیبوں کو چاہیے کہ وہ کہانی لکھنے سے پہلے سینئر لکھاریوں کی کہانیوں کا مطالعہ ضرور کریں ۔تب ہی وہ اچھی کہانی لکھ پائیں گے ۔مطالعہ ذہن کو وسعت بخشتا ہے ۔علی عمران ممتاز جب میرے پاس آئے تو میں نے اُنہیں یہی کہا کہ موجودہ لکھاری مطالعہ کے بغیر کہانیاں تخلیق کر رہے ہیں اور ایسی کہانیاں اچھی تو ہوتی ہیں مگر اس میں وزن نہیں ہوتا ۔لکھاری درست طریقے سے اپنی بات قارئین تک نہیں پہنچا پاتا۔
ہماری تحریریں بے اثر کیوں۔؟کے موضوع پر سلیم ناز نے کہا ہم اپنی تحریروں کے ذریعے بچوں کو اتفاق ،اتحاد کا درس دیتے ہیں اور خود سینئر جونیئر کی دوڑ میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔نماز کا درس دیتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے ۔ایسے میں ہماری تحریریں بے اثر ہی رہیں گی ۔اگر ایسا ہوتا رہا تو یاد رکھیں ہماری تحریریں ہمیشہ بے اثررہیں گی ۔تحریر اچھی تو ہو گی مگر کسی پر اثر انداز نہیں ہو گی۔
تاثرات کے مراحلے میں شرکاء میں سے لاہور سے ڈاکٹر طارق ریاض خان ،میجر (ر)نیئر شوکت انصاری ۔بلوچستان سے نورمحمد جمالی ،دریا خان سے حیات خان نیازی اور ملتان سے جناب اظہر محمود شیخ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا آج کا یہ کنونشن کامیاب رہا۔علی عمران ممتاز ،عبداللہ نظامی ،امان اللہ نیئر شوکت اور کرن کرن روشنی ٹیم کومبارک باد پیش کرتے ہیں ۔ہمیں یہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔محبتیں پھیلانے اور بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں ہم کنونشن کی انتظامیہ کے ساتھ ہمیشہ ہیں۔
حاضرین کے تاثرات کے بعد القلم ایوارڈ 2016ء کی تقسیم ہوئی ۔بہترین کہانی پر اوّل نورالاامین میاں چنوں،دوئم بینا رانی ملتان اور سوئم شاہد فاروق پھلوڑ کو جبکہ بہترین نظم پر اوّل محمد امتیاز عارف لاہور ،دوئم رائو مظہر الیاس خانیوال اور سوئم فاروق قمر صحرائی سیالکوٹ کو القلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔صداقت حسین ساجد،امین بابر،اور تصور عباس کو بزم منزل ایوارڈ سے نوازا گیا۔زبیر ارشد،امان اللہ نیئر شوکت ،ڈاکٹر طارق ریاض خان ،مشتاق حسین قادری،کو کرن کرن روشنی ایوارڈ جبکہ حافظ مظفر محسن ،محمد شعیب مرزا ،فرزانہ ریاض،ثنا ناز،گل زیب عباسی اور علی عمران ممتاز کو تعمیر ادب ایوارڈ دیا گیا۔
عاطف فاروق سرگودھا،اور اظہر محمود شیخ کو مئی اور جون کے شمارے کی بہترین کہانی پر تحفہ دیا گیا ۔کرن کرن روشنی ٹیم کا تعارف کرواتے ہوئے علی عمران ممتاز نے پوری ٹیم کو اسٹیج پر مدّعو کیا اورمہمانان گرامی نے بہترین کارگردگی پر شیلڈز اور تحائف سے نوازا۔جس میں حاجی محمد لطیف کھوکھر،ماجد حسین ملک،مراد علی ،احتشام الحق،کاشف علی نیئر،عرفات ظہور،محسن ملک،اظہر سپل،مجیداحمد جائی ،ارسلان سرفراز،ایم یونس جاوید،ہارونہ آپی،محمد جبران منہاس،علی حسنین تابش،محمد اکرم ریاض،یونس جاوید انصاری،محمد اقبال بلال،عمر فرید،جنید اکرم ،عبدالراحمن رزاقی،شہاب حسن صدیقی،فاروق حسن ،ساجد سعید،ڈاکٹر محمد عبید اللہ ،عبدالصمد مظفر،زبیر ارشداور دلدار حسین احسن شامل تھے۔ بھر پور تعاون کرنے پر سعید سعیدی (ماہنامہ بزم منزل) ، محمد یوسف وحید(سہ ماہی بچے من کے سچے)اورخواجہ حبیب(بنٹی ٹوائے) کو یادگاری شیلڈ سے نوازا گیا۔
بچوں کا ادب اور مین سڑیم میڈیا کا کردار پر خواجہ مظہر نواز صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بچے ٹی وی سے سوشل میڈیا سے اور ویڈیو گیمز سے سیکھ رہے ہیں ۔مین سٹریم میڈیا سے بچے اثر لے رہے ہیں ۔بچوں کے آئیڈیل سیاستدان اور فنکار ہیں ۔اس میڈیا نے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لی ہے۔بچے کتب بینی کی بجائے ویڈیو گیمز سے سیکھ رہے ہیں ۔ہمیں اگر اپنے معاشرے کو سدھارنے کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو ہمیں اپنے مستقبل کی فکر کرنی ہو گی ۔ہمیں انہیں اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے بتانا ہوگا۔
مظہر کلیم ایم ۔اے اور حافظ مظفر محسن نے کہاتعلیمی اداروں میں بزم ادب اور غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد بحال کیا جائے ۔پرائمری اور مڈل کلاسز میں بچوں کے ادب کی ترویج کے لئے پریڈ مختص کیا جائے۔صدارتی خطاب سے پہلے کرن کرن روشنی کے خاص شمارہ خالق نمبر کی تحریروں کا رزلٹ بتایا گیا اور کامیاب اہل قلم میں ستارہ ادب ایوارڈ تقسیم کیے گئے۔ مرد اہل قلم میں اوّل لیاقت علی تلمبہ ،دوئم شاید حفیظ میلسی،سوئم نور محمد جمالی جعفر آباد اور خواتین اہل قلم میں اوّل نیئر رانی شفق ڈی جی خان ،دوئم فرزانہ روحی اسلم کراچی اور سوئم فرحت مرتضی خان لیہ تھے۔
ابصار عبدالعلی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا بچوں کے ادیبوں کی حکومتی سطح پر سر پرستی نہ ہونے سے بچوں کے لکھاری مایوسی کا شکار ہیں ۔حکومت بچوں کے ادیبوں کے لئے پرائد آف پرفارمنس کا اعلان کرے ،ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر بچوں کے ادب پر پروگرامات اور لکھاریوں کو ان کی تحریروں پر معاوضہ دیا جائے۔اُنہوں نے مزید کہا حکومتی عدم توجہی کے باعث بچوں کا ادب اور کتب بینی کا شوق زوال پذیر ہو تا جا رہا ہے۔
صدارتی خطاب کے بعد مہمانان گرامی میں ”ادب دوست ایوارڈ”2016ئتقسیم کیا گیا ۔یہ ایوارڈ ماہنامہ کرن کرن روشنی ،ماہنامہ تعمیر ادب،ماہنامہ بچوں کا پرستان،پاکستان چلڈرن میگزین سو سائٹی،اکادمی ادبیات اطفال،ادارہ تحقیق ادب اطفال ،وفائے پاکستان ادبی فورم ،سہ ماہی بچے من کے سچے اور ماہنامہ بزم منزل کی طرف سے ادب دوستی پر دیا گیا۔
اختتامی کلمات عبداللہ نظامی نے پیش کیے اور تقریب میں ملک بھر سے آنے والے نوجوان اہل قلم ،مہمانان گرامی اور ان اداروں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے جنوبی پنجاب میں تاریخی کنونشن کا انعقاد ہوا۔اختتامی کلمات کے بعد شرکاء کنونشن میں تحائف تقسیم کیے گئے ۔نیشنل رائیٹرزکنونشن میں ملتان ،آزاد کشمیر ،فیصل آباد،ڈی جی خان ،ساہیوال ،لاہور،میلسی ،خان پور، چشتیاں،جھنگ،داجل،شور کوٹ،ٹوبہ ٹیک سنگھ، پیرمحل، چوپڑہٹہ، کبیروالا، شجاع آباد، جلال پورپیروالا ، وہاڑی،خانیوال،کوٹ سلطان،مظفر گڑھ،چوک قریشی،سرگودھا،تلمبہ،کراچی،سرائے سدھو،جعفر آباد،اور جڑانوالہ سے نوجوان اہل قلم نے شرکت کی۔تقریب کے اختتام پر شرکاء کی خاطر تواضع کی گئی اور سبھی ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔