تحریر : انجینئر افتخار چودھری بس ایک کام پاکستان کو کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ کل بھوشن کی گردن لمبی کرے مزاحمتی سیاست کرنے والوں کو مچھر اور سانپ تکلیف نہیں دیتے قانون حرکت میں آیا تو دیکھئیے گا گولی اندر ہونے سے سارے چوہے جالندھر ہوں گے۔محمودخان اچکزئی پاکستانی بنیں۔ جس کا کھائیں اس کے گن گائیں حضور۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان لوگوں کو پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے دیں جنہوں نے آج تک تقسیم بر صغیر کو دل سے تقسیم نہیں کیا؟جناب محمود خان اچکزئی اور ان کے والد گرامی جناب عبدالصمد اچکزئی دونوں ہی پاکستان کے خلاف ہیں تقسیم کے وقت سرحدی گاندھی اور اس کے سارے ساتھی آزاد پختونستان کی بات کرتے تھے۔ ہزارہ نے ان کا یہ خواب چکنا چور کیا اور شیر دل پختون پاکستان کا حصہ بنے۔اب پاکستان کی تھالی میں چھید کرنے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سر براہ نے ایک نئی پھلجھڑی چھوڑی ہے کہ پاکستان اپنے والے حصے کو آزاد کر دے چاہے بھارت کرے یہ نہ کرے۔جناب کو پاکستان پھلتا پھولتا بھاتا نہیں حالنکہ ان کے گھر میں پاکستان کے طفیل بے شمار عہدے پوزیشنیں موجود ہیں بلوچستان کی گورنری بھی گھر میں پانڈے مانجھتی ہے اسمبلی کی رکنیت بھی ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔
اصل میں مروڑ ستر سال پرانے ہیں چودھری رحمت علی نے ١٩١٥ میں بزم شبلی میں جب دو قومی نظریہ پیش کیا تو اس وقت یہ ایک گریٹر بلوچستان اور پختونستان کا خواب دیکھ رہے تھے آ گے چل کر جب پاکستان کی بات زبان زد عام ہوئی اور ملت کے پاسباں کے ہاتھ باگ ڈور آئی تو انہیں اسفند یار ولی کے دادا کا سامنا کرنا پڑا جو موہن داس کرم چند گاندھی کے تگڑے ساتھی بن کر دو قومی نظریے کے خلاف صف آراء تھے۔اللہ کا کرم ہوا پاکستان بن گیا مگر علماء کے ایک طبقے اور ان لوگوں نے اس پاکستان سے فائدے تو اٹھائے مگر اس کے لئے کوئی کام نہیں کیا دل سے نہ تسلیم کرنا اور اوپر سے ان کے ہاتھ اہم عہدے دینے سے پاکستان کو سخت نقصان ہوا ۔دوسری جانب جن لوگوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا ان کے چاہنے والوں نے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن جو وفاقی وزیر کے عہدے کے حامل ہیں انہوں نے آج تک کشمیر کے لئے کچھ نہیں کیا کشمیری مر جائیں کھپ جائیں ان کو خبر نہیں ہوتی البتہ ہیں مرد بحران یعنی بحران کسی پر آئے اپنے لئے فائدہ اٹھا کر پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کا چیئرمین تو اسے ہونا چاہئے جس کے تعلقات یورپ امریکہ اور دیگر ممالک سے اچھے ہوں۔ان کے اوپر جو لیبل لگا ہوا ہے اس کی وجہ سے مغرب سے مدد لینے کے علاوہ سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کی حمائت بھی نہیں لے سکے۔ہم جب جدہ میں کشمیر کاز کے لئے سر گرم تھے تو امام حرم سے ملاقات کی اور ان سے اپیل کی کہ کم از کم جمعے کی نماز کے بعد دعا میں کشمیر کا نام لیا جائے تو کہا گیا یہ آپ کی حکومت کی جانب سے ہماری حکومت کو لکھا جائے اور اگر منظوری ہوئی تو دعا کر دیا کریں گے۔مرحوم عبداللہ بن سبیل نے کہا ویسے تو ہم جمیع المسلمین کی دعا کرتے ہیں۔ آج جب وہ جنرل راحیل اور پاک فوج کی مدد کی بھیک مانگتے ہیں تو مجھے رات گئے اس میٹینگ کا خیال آتا ہے جہاں سے ہم مایوس اٹھے تھے اللہ بے نیاز ہے۔اس قسم کے کام جناب فضل الرحمن کو کرنے تھے جو ایک عام پاکستانی کرتا رہا۔یہ ہماری بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے ہے کہ جس مسلم لیگ نے پاکستان آزاد کرایا اس کے وارث کہتے دکھائی دیئے کہ ہم میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں اور آپ بھی ۔یاد رہے یہ تقریب سیفما کے زیر اہتمام انڈین پنجاب میں ہوتی ہے۔اور یہ خطاب جناب نواز شریف نے کیا تھا۔نام مسلم لیگ کا دوستیاں عاصمہ جہانگیر سے۔اچکزئی صاحب !کشمیر کے بارے میں ایک فیصلہ ہو چکا ہے اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو حق دیا جائے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان میں جس کے ساتھ رہنا چاہیں فیصلہ کر لیں۔
اگر آپ کو کوئی شک ہے کہ کشمیری کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو آئے روز اٹھتے جنازوں میں پاکستانی پرچم دیکھ لیا کریں۔اس پار کے کشمیری پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الاللہ کے نعرے لگا کر ثابت کر رہے ہیں۔ہم وانی جیسے جوانوں کے جنازوں کی بات کرتے ہیں۔ادھر بھی کشمیر ہے مجھے صرف یہ بتا دیں کہ کون یہاں سے پاکستان سے آزادی چاہتا ہے اگر چاہتا بھی ہے تو قلیل تعداد میں ہیں ہم انہیں بھی موقع دیتے ہیں آپ اپنے مربی بھارت سے یہ بات تو منوا دیں کہ آپ بھی کشمیر کو آزاد کریں۔بلکہ ایک ہی وقت میں دونوں ملک دونوں کشمیر کو آزاد کریں اور رائے شماری کرا لیں کہ کون کس کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔
جس فوج کو آپ گالی دیتے ہیں وہ فوج پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔آپ کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھتا ہے وہ مجھے علم ہے کیا ہے اور کیوں ہے؟ہم کب ایران سے تعلقات کے خلاف ہیں۔اللہ کے کرم سے پاکستان میں رہنے والے پہلے پاکستانی ہیں بعد میں شیعہ اور سنی ہیں اس بنیاد پر ہزار بار کوشش ہوئی اور ایک ہزار ایک مرتبہ ناکام ہوئی شیعے مرے تو سنی خون کا عطیہ دینے پہنچے اور جب کسی سنی کو مارا گیا تو شیعہ پہنچ گیا ایران ہمارا پڑوسی ہی نہیں دوست ملک ہے۔آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں کدورت ہے کہ انڈین کل بھوشنوں کی مدد سے آپ نے بلوچستان میں جو آگ لگائی تھی وہ اس فوج نے بجھائی ہے ۔بھارت کے بلوچستان کے بارڈر پر افغانستان میںمتعدد قونصل خانے کیا کر رہے ہیں وہ ادھر سے بھیجتے ہیں آپ ادھر سے سہولت کار بنتے ہیں ایک وقت میں یہاں انرکی اور بد امنی کی یہ حالت تھی کہ بلوچستان میں پاکستان کا قومی پرچم بلند نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سچ سچ بتائیں یہی پیڑھ ہے ناں آپ کو۔کہ اب تو سبز ہلالی پرچم گلی گلی کوچہ کوچہ لہرایا گیا۔بھارت کو کشمیر مل جائے گا مگر اس کے لئے اسے استصواب رائے کرانا ہو گا۔وہ رائے شماری جس کا وعدہ آپ کے محسن نے کیا تھا آپ کے جواہر لعل نہرو نے کیا تھا کہ جنگ بندی کرائی جائے ہم استصواب رائے کراتے ہیں ہم رائے شماری کرائیں گے۔بات مان لی گئی مگر بتائیے آپ اپنے پیاروں کی بات کیوں نہیں مانتے اور بھارتی اور پاکستانی کشمیر میں رائے شماری کرا لیتے۔تھرڈ آپشن کی بات نہیں ہو گی اس لئے کہ جو بات اڑسٹھ سال پہلے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر طے ہو چکی ہے اسے یکسر ختم کرانا پاکستان کی شکست ہو گا۔میں حیران ہوں کہ پاکستان کی گود میں بیٹھ کر اس قسم کے لوگ پاکستان کی داڑھی نوچ رہے ہیں۔مجھے تو اک اور بات کا ڈر ہے اس قسم کے لسانیت پرست سنپولیئے ١٩٧١ میں اپنا کام دکھا چکے ہیں کہیں نواز شریف انہی کا اشارہ تو نہیں کر رہے تھے کہ اگر وزیر اعظم کو چلتا کیا تو مشرقی پاکستان جیسا سانحہ ہو سکتا ہے۔مجھے لگتا ہے اچکزئی کرائے کے ٹٹو بن کر سامنے آ رہے ہیں کہ میرے وڈے بھرا نوں مارن تو پہلوں میرے نال لڑ۔اس موقع پر پاکستان کی فوج پر دہری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں اللہ کے کرم سے عدلیہ نے بہترین فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی دروغ گوئی نے انہیں جاتی امراء پہنچا دیا ہے۔بقول شیخ رشید زخمی سانپ زیادہ خطر ناک ہوتا ہے۔مجھے پورا یقین ہے نواز شریف اپنی ذات کی خاطر اس قسم کے کرائے کے لوگوں کو استعمال کرے گا۔ سعودی عرب میںخبریں کے بیورو چیف کی حیثیت سے مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے کے بار بار موقعے ملے ہیں۔
ایسی ہی ایک نشست میں انہوں نے فوج کے خلاف آگ اگلی تھی تو میں نے انہیں منع کیا تھا جس کی گواہی لاہور کے چودھری حنیف،مسعود ملک،اور خود میاں شہباز شریف ہیں جنہوں نے میری اس بات کی تائید کی تھی جس میںانہوں کہا تھا میاں صاحب!آپ پوری فوج کو برا بھلا نہ کہیں کرپٹ اور غلط جرنیلوں کے خلاف بات کریں۔محمود خان اچکزئی کسی کے کہنے پر میدان میں آئیں ہیں۔اب سوال پیدا ہے کہ اس کا علاج کیا ہے تو سیدھا سا علاج یہ ہے کہ جس آئین اور قانون کی بالا دستی کی آپ بات کرتے ہیں اسی آئین اور قانون کو استعمال میں لائیں۔ بس ایک کام پاکستان کو کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ کل بھوشن کی گردن لمبی کرے ۔مزاحمتی سیاست کرنے والوں کو مچھر اور سانپ تکلیف نہیں دیتے قانون حرکت میں آیا تو دیکھئیے گا گولی اندر ہونے سے سارے چوہے جالندھر ہوں گے۔محمود خان اچکزئی پاکستانی بنیں۔ جس کا کھائیں اس کے گن گائیں حضور۔