تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ ١٤ اگست یوم آزادی کی تقریبات تو یکم اگست سے ہی شروع ہو چکی ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر میں محب وطن پاکستانیوں کی طرف سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کامیابیوں پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ہمارے نزدیک قائد اعظم کی کامیابیوں میں سب سے بڑی کامیابی برصغیر کے مسلمانوں میں اسلامی تشخص کو بیدار کر کے دنیا کی پانچویں اور اسلامی دنیا کی اُس وقت کی سب سے پہلی بڑی ریاست کا قیام تھا۔ اب تو پاکستان دنیا کی چھٹی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کی حامل قوت ہے۔
قائد اعظم کی جد وجہد کو ڈاکٹر خالد علوی نے اپنی کتاب”قائد اعظم اور مسلم تشخص” میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ آسان نہ تھا بلکہ بڑا مشکل کام تھا۔ مشکل اس لیے تھا کہ صلیبیوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی لہٰذا ایک پالیسی کے تحت مسلمانوں کو پستی کی گہرائیوں میں ڈال دیا تھا۔ اس کے مقابلے میںہندوئوں کو ترقی کے منازل طے کروائے تھے۔ یہ ان کے بڑوں کی پالیسی کے تحت تھا۔ جب صلیبیوں نے مسلمانوں کے برصغیر پراقتدار کے ایک ہزار سالہ دور کی آخری نشانی مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے اقتدار چھینا تھا تو مسلمانوں کو اپنا دشمن نمبر ون قرار دیا تھا۔ اس پالیسی کی جھلک ملاخطہ فرمائیں”شاہ پرتگال کا فرمان تھا موروں( مسلمانوں)کو قتل کیا جائے اور ہندوں کو تعلیم دے کر دفتری کام لیا جائے ۔میجر ڈی باسو، ایک ہندو مضمون نگار نے صلیبیوں کی مسلم کش پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”حقیقت میں لارڈ اڈنبراگورنر جنرل ١٨٤٢ء میںاس پالیسی کا آغاز کر چکا تھا۔
اس کا حکم تھا کہ ہلالی مسلمانوں کو نیچا دیکھاتے رہو۔ انہیں ہر گز نہ اُبھرنے نہ دو۔کسی طرح ان کی ہمت افزائی نہ کی جائے” خود لالچی، سیکولر،کمیونسٹ اور غدارِ ملت مسلمان اور جن کو٧ ١٨٥ء کی جنگ آزادی میں انگریز کا ساتھ دینے اور مسلمانوں سے غداری کرنے کے انعام کے طور جاگیریں عطا کی تھیںاور غیر مسلم قادیانی جوٹھگی کے ذریعے اپنے آپ کومسلمانوں کا ایک فرقہ ظاہر کے عام سادہ لو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے یہود و نصارا کے بین الاقوامی مشن میں لگے ہوئے تھے کو آل انڈیا مسلم لیگ اور عام مسلمانوں کے سلوگن” پاکستان کامطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ لے گے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ مسلم ہے تومسلم لیگ میں آ ” نیچا دکھا کر مسلمانوں کے آزادی کے احتجاجی سمندر میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جو پاکستان بننے اور قائد اعظم کی وفات کے بعد اپنے پرانے عزاہم کے ساتھ پھر نمودار ہوئے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچانے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف کانگریسی مسلمان علماء جن کا کہنا تھا کہ برصغیر میںمسلمان قوم علیحدہ نہیں بلکہ ہندوستان میں رہنے والے سارے مذاہب کے لوگ ایک قوم ہیں۔ اور کہا کہ قومیں اوطان یعنی و طن سے بنتی ہیں۔ان حالات میں بکھری ہوئی مسلمان قومیت کو قائد اعظم نے مسلم قومیت کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اور کہا کہ غلط ہے کہ ہندوستان کے سارے مذاہب ایک قوم ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں! ٩ کروڑ مسلمان ہر لحاظ سے ان سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندو علیحدہ قوم ہے۔ قائد اعظم نے بتایا کہ ہندوئوں اور مسلمانوںکے ہیرو الگ ہیں۔ ایک فاتح مسلمانوں کا ہیرو ہے تو وہ ہندوئوں کا دشمن قرار پایا ہے۔ دونوں کی لوک داستانیاں علیحدہ ہیں۔دونوں قومیں آپس میں شادیاں بھی نہیں کرتیں۔ ان کے کھانے پینے کے طریقے الگ ہیں۔ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے ہیں اور گائے کو پوجتے ہیں۔ جبکہ مسلمان اسے ذبح کر کے اس کا گوشست کھاتے ہیں۔ ہندو مورتیوں کو پوجتے ہیں ۔مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میںکوئی چیزبھی قدر مشترک نہیں۔ قائد اعظم نے ٨ دسمبر ١٩٣٩ء کو عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے کو عشائیہ دیا تو اس موقعہ آپ نے کہا” میں ہر مسلمان سے کہتا ہوں کہ اسلام آپ سے توقعات رکھتا ہے، انفرادی اور اجتماعی طو پر کہ آپ اپنا فرض ادا کریں۔ اپنے لوگوں کو بحیثیت ایک قوم کے تیار کریں”علامہ شیخ محمد اقبال نے مسلم قومیت کو اُجاگر کرنے کے لیے بہت پہلے اپنے شعر میں کہا تھا کہ ” اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر .خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیۖ.’ ‘ ۔ دوسری طرف گانگریسی علماء کے اوطان کے بیانیہ کو مولانا سیدابواعلی مودودی نے چیلنج کیا اور قائداعظم کے دو قومی نظریہ کی حمایت کی اور مسئلہ قومیت پر لاتعداد مضامین لکھے جس کو آل انڈیا مسلم لیگ نے پورے ہندوستان میں تقسیم کیا۔
ان مضامین میں مسلمانوں کے الگ ملی تشخص کا درس تھا۔ جو، اب بھی کتابی شکل ، مسئلہ قومیت اورسیاسی کشمکش دو جلدوں میں موجو دہیں۔صاحبو! یہ اُس وقت کی بات ہے جب برطانوی سامراج اور ہندو اکثریت کے رہنما مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تو کیا اقلیت بھی ماننے کو تیار نہیں تھے۔وہ برملا اس رائے کا اظہار کرتے تھے کہ ہندوستان میں دو ہی قوتیں ہیںانگریز اور کانگریس۔کسی تیسرے فریق کا کوئی وجود ہی نہیں نہ ہی اس کا کوئی نمائندہ۔قائد اعظم ایک وکیل تھے۔ قانون جانتے تھے۔ انہوں نے قلیل وقت میں جمہوری ، قانونی اور مظبوط دلائل سے اس طلسم کو توڑا اور اور مسلم تشخص اوردو قونی نظریہ کو اُجاگر کیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ بقول راجہ ظفر الحق صاحب ان کی تقریر جو انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ٢١ اکتوبر ١٩٣٩ء کے اجلاس میں کی تھی۔ ایک ایک لفظ ان تمام شکوک و شہبات کو ہمیشہ کے لیے رفع کرنے کے لیے کافی ہے۔ جو نہ اس دور میں اُبھارے جارہے تھے بلکہ مستقبل میں ہر قسم کی نظریاتی تخریب کاری کے زہر آلود پراپگینڈے کا مسکت جواب ہے ۔ قائد اعظم فرماتے ہیں ”میری زندگی کے واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کی جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرر خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔
میں آپ سے داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتاہوں کی مرتے دم میرا اپنا دل، میرا اپنا ایمان، میراپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی دفاع اسلام کا حق ادا کر دیا۔میراخدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میںاسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مرے”قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے والے حضرات کو اُوپر درج قائد اعظم کی تقریر کا مطالعہ کرنا چاہے اور اپنے بودے خیالات سے رجوع کرنا چاہیے۔دو قومی نظری اور نظریہ پاکستان کی کشتی میں سوارہو کر پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ جب تک اسلام کی شیدائی زندہ ہیں۔بانی ِپاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحکے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ سیکولر حضرات کو سابق حکمران کا کہنا کہ میں سیکولر ہوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔