کتب خانے سماج کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ سماجی ضرریات کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے علم و آگہی کے خزانے ہیں۔ کیونکہ ان میں ماضی کے تجربات اور حال کے مشاہدات کو تحریری صورت میں محفوظ و مرتب کیا جاتا ہے۔
علم و فن کی اشاعت اور حفاظت کتابوں کی مرہون منت ہے ۔ اور کتابیں مل کر کتب خانوں کو وجود بخشتی ہیں۔ لہذار اگر یہ کہا جائے کہ کتب خانے انسانی عقل و دانش کے مخزن اور تہذیب و تمدن کے ارتقاء کے ضامن ہیں تو عین حقیقت کاا ظہار ہو گا۔
کتب خانوں کی مسلمہ اہمیت و افادیت کے پیش نظر تقریباً ہر دور، ہر معاشرہ اور ہر ملک میں کتب خانوں کا قیام عمل میں آتا رہا۔ خصوصاً مسلمانوں کے زمانہ عروج کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں کے پس منظر میں ان کی کتاب دوستی کا ر فرما نظر آئے گی۔
کتابوں سے گہرے لگائو اور کتب خانوں کے قیام سے شغف کی اس شاندار روایت کو عصر حاضر میں یورپ نے نہایت عمدگی سے آگے بڑھایا۔ اہل یورپ کی مساعی کے نتیجے میں جہاں دیگر علوم و فنون میں حیرت انگیز ترقی ہوئی وہاں کتابداری کے فن میں بھی قابل قدر پیش رفت ہوئی۔
Book Libraries
اگر وطن عزیز پاکستان میں کتب خانوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ یہاں نا صرف کتب خانوں کا انتہائی خطر ناک حد تک فقدان ہے بلکہ جو بھی کتب خانے قائم ہیں وہ فعال نہیں ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یہاں پر ناصرف پبلک لائبریریاں ویران پڑی ہیں بلکہ تعلیمی اداروں کی لائبریریوں پر بھی سکوت مرگ طاری ہے۔
لوگوں میں ذوق مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی نادر کتب فقط الماریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں لائبریریوں کا تصور صرف اور صرف کالجو ں اور یونیورسٹیوں میں ملتا ہے ۔ پرائمری سے لیکر ہائی سکول تک کے بچوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ لائبریری ہوتی کیا ہے ؟ کیا سکولوں میں لائبریریوں کی ضرورت نہیں ہے۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی کتب خانے اگر کسی حد تک فعال ہیں تو وہ بھی اپنے نا کافی وسائل کی وجہ سے ۔ ا کثر اپنی ضروریات کی اہم کتب بھی خریدنے سے قاصر رہے ہیں۔
طلباء کو اکثر اپنی تعلیمی ضروریات کو پورے کرنے کیلئے لائبریریوں میں نئی طبع شدہ کتابیں صحیح وقت پر میسر نہ ہونے کی صورت میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طلباء اور اساتذہ کی یہ ضروریات کیسے پوری ہوں۔
اس وقت دنیا میں انتہائی تیزی کے ساتھ نئی نئی کتب شائع ہو رہی ہیں لیکن پاکستانی کتب خانے یہ کتابیں منگوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ جس کے سبب ہم تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
حکام بالا سے میری گزارش ہے کہ وہ نا صرف قائم شدہ پبلک لائبریریوں اور تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کو فعال بنائیں بلکہ ہر چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں بھی شاندار پبلک لائبریریاں قائم کریں تاکہ نسل نو میں زیادہ سے زیادہ ذوق مطالعہ پیدا ہو اور ہم اپنے تعلیمی ہدف تک جلد از جلد پہنچ سکیں۔