آج میرا ملک پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ایٹمی ملک ہے جہاں زندگی کم اور موت زیادہ ہے اور یہی وہ ملک ہے جس نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہر لحاظ سے اپنا سب سے منفرداور جدا مگر منفی اعزاز برقرار رکھا ہوا ہے اور آج تک جس نے اپنے اِس اعزاز کو ٹوٹنے نہیں دیا ہے یہ اِس کا ہی ریکارڈ ہے کہ اِس نے اپنایہ ریکارڈ قائم رکھا ہوا ہے اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ آج ہی لندن سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ دنیا میں سالانہ دس لاکھ بچے پیدائش کے 24 گھنٹے کے دوران ہی مرجاتے ہیں یہاں بھی یہ امرغور طلب اور ہم پاکستانیوں کے لئے یقینا لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ پیدائشی بچوں کی اموات کی شرح کے حوالے سے بھی پاکستان سرِ فہرست ہے اِس کا انکشاف بچوں کے لئے کام کرنے والی ایک برطانوی ”سیودی چلڈرن” نامی تنظیم نے کیا ہے اِس حوالے سے تنظیم کا کہناہے کہ گزشتہ برس دنیا میں 66 لاکھ بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی دنیا سے اپنارشتہ توڑ کر ملک عدم کو سِدھارگئے جن میں سے زیادہ ترکی اَموات ایسے امراض سے ہوئیں جن سے اِنہیں بچایا جاسکتا تھا۔
جبکہ اِس خبر میں برطانوی تنظیم نے بڑے وثوق سے یہ بھی کہاہے کہ مردہ بچہ پیدا ہونے اور پیدائش کے دن فوت ہوجانے والے بچوں کی تعدادکے حوالے سے دنیا کا آٹھواں ایٹمی ملک پاکستان سرِ فہرست ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان کیساایٹمی ملک ہے…؟ جس میں ایک ہزاربچوں میں سے 40.7 بچے یاتو مردہ پیداہوتے ہیں یا وہ پیداہونے کے دن ہی فوت ہوجاتے ہیں یہ اَموات دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، ویسے زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ یہ بہتر جانتا ہے کہ کِسے طویل زندگی دے کر خلقت میں زندہ رکھاجائے اور کیسے موت دے ..؟ مگر پھر بھی یہ خبرہمارے حکمرانوں سیاستدانوں اور محکمہ صحت کے اداروں سمیت عوام کے لئے بھی قابلِ افسوس ہونی چاہیے کہ ہمارے یہاں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے..؟ آج اِس حوالے سے عالمی تنظیموں نے ہمیں سرِفہرست رکھاہواہے اِس کا سدِباب کیا جائے کیوں کہ ہم ایک ایٹمی ملک ہیں،اِس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ اِس کا ادراک کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرے کہ صحتِ عامہ کے بجٹ میں بھی دفاعی بجٹ جتنایا کم ازکم اِس کے قریب قریب تو اضافہ کرے تاکہ ہمارے یہاں عوام الناس کو صحت عامہ اور علاج ومعالجہ کی بہتر سہولیات میسر آسکیں اور عوام الناس میں علاج و معالجہ سے متعلق ایسے پروگرام بھی شروع کرائے کہ جن سے عوام کو آگاہی حاصل ہو۔
بیشک اَزل سے زندگی اور موت کائنات کی دوایسی عظیم حقیقتیں ہیں کہ جنہیں ہرزمانے کے ہرمعاشرے کے ہر اِنسان نے بغیرچوں وچراں کے تسلیم کیا ہے، اورآج کے تو اِس جدید دورکے ہرمُلک، ہر سرحد، ہرعلاقے، ہر زبان ونسل، ہر مذہب و ملت اور اِن مذہب و مِلت میں بسنے والے ہرسطح کے ( ہر امیراور ہر غریب) اِنسان نے تو جیسے زندگی کو ایک حسین آرٹ تصور کر لیا ہے ،اور وہ یہ سمجھتاہے کہ جیسے اِسے یہ زندگی جو ایک بارملی ہے یہ جس طرح سے چاہئے گزارے، اور جس طرح سے چاہے نہ گزارے،تو بس اِس کی زندگی میں کسی کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا اِنسان کہیں زندگی سے ایسی محبت کرتادِکھائی دیتا ہے کہ جیسے یہ زندگی کو کبھی خود سے جُداہی نہیں ہونے دے گا اور کہیں ایسی مار دھاڑ سے بھر پور زندگی گزارتا ہے کہ اِسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتاہے کہ اِسے تو زندگی بے مقصددے دی گئی ہے کیوں کہ اِس کے نزدیک زندگی کی اہمیت مُوت سے بڑھ کر نہیں ہے وہ زندگی جس سے متعلق شاعر(راقم الحرف)کا کہنا ہے کہ:۔ زندگی موت کی امانت تو ہے مگر..؟ اِس کی حفاظت بھی فرض سمجھو
Life
یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ زندگی موت کی امانت ہے مگر پھر بھی کچھ لوگ اِس کی خیانت کرتے ہیں … اَب ایسے میں مجھے افسو س کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ آج کا اِنسانی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر انداز سے ایسے گزاررہاہے کہ جیسے اِس کی زندگی نہ تو اِس کے لئے ہی کسی اہمیت کی حامل ہے اورنہ ہی اِس کی نظر میں کسی دوسرے کی زندگی کا کوئی مقصدہے،آج جیسے ہمارے یہاں موجود شدت پسند عناصر ہیں جنہیں نہ تو اپنی زندگی کی اہمیت کا کچھ پتہ ہے اور نہ ہی اِنہیں دوسرے کی زندگی کی اہمیت کا کچھ خیال ہے اِنہیں تو بس اپنی ضداور ہٹ دھرمی کے آگے اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل ہونے تک معصوم اور نہتے اِنسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کی پڑی ہوئی ہے۔
بہر حال..! آج ایسی بہت سی مکروہ روش اور ہٹ دھرمی کے اندھیرے کنوئیں میں پڑا اِس اکیسویں صدی کا اِنسان جہاں بہت عیار اور مکار ہے تو وہیں آج کا یہی اِنسان بڑابے وقوف اور لڈن پپو (بدعقل بچہ جیسا) بھی بہت ہے۔جو اپنی ایک ایسی ضد میں غرق ہے جس سے اِسے اور اِس کی نسلوں کو سوائے نقصان کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
اَب ایسے میں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ زندگی کو سمجھ کر گزارنااور اِسے موت کی آغوش میں دینابھی خوش نصیبوں والوں کا ہی کام ہے کانیگی کا کہنا ہے کہ آج یقیناایسے لوگوں کی تعداد نسبتاََ کم ہے جو زندگی کے حقیقی معنوں سے واقف ہیں اور جوجینے کا جذبہ رکھتے ہیں اور اِسی طرح آج کی دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی بھی موجود ہے جو نیم دل یا بہ امرمجبوری جی رہے ہیں۔ جبکہ کسی بھی زمانے کے کسی بھی معاشرے کے کسی بھی زبان ونسل اور مذہب وملت کے کسی بھی اِنسان نے اِس حقیقت کو کبھی بھی جھٹلانے کی شائد ہی کوشش کی ہو کہ زندگی موت کی امانت اور موت ایساقرض ہے جِسے ہرزمانے کے ہر معاشرے کے ہر مذہب و مِلت ہر اِنسان کو ہر صور ت میں ادا کرنا پڑا ہے، اور یہی سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔
اگرچہ موت ایک اٹل حقیقت ہے مگر پھر بھی اِنسان اِس سے ڈرتاہے سمجھ نہیں آتاکہ وہ کیوں ایسا کرتا ہے…؟ کہیں اِس لئے تو نہیں کہ زندگی اِنسان کو بہادر اور لڑنے کا حوصلہ اور موت اِسے ڈرپوک بنا کر بزدل کردیتی ہے، اِسی دنیا میں ایسے بھی لوگ گزرے ہیں گزررہے ہیں اور گزرتے رہیں گے جو مرکر بھی زندہ رہیں گے کیوں کہ اِنہوں نے اپنی زندگی نہ صرف اپنے بلکہ عالمِ اِنسانیت کے لئے بھی بامقصدگزاری ہے آج اِسی لئے تو وہ دنیا سے رُخصت ہوکر بھی بنی نوع اِنسان کے دل اور دماغ میں زندہ ہیں،جین ڈی لافونٹین کا قول ہے کہ” موت دانشمندوں کے لئے حیرانی کی چیزنہیں۔وہ ہر وقت موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لئے تیاررہتے ہیں”اور وہ یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ موت کا ذائقہ ہر ذی شعورکو چکھناہے”اِس سے کوئی نہ تو انکارکرکے بچ سکتاہے اور نہ ہی اِسے چکمہ دے کر کسی اور کی جانب موڑسکتاہے یہی موت تو وہ حقیقت ہے جو آج تک کبھی بھی لیٹ نہیں ہوئی ہے، جبکہ زمینِ خداپر خدائی فوجداری کے دعویداراِنسان نے ہر چیز کو چکمہ دے دیاہے، سمندروں کا رخ موڑدیاہے اور طوفانوں کی طاقت کو زیرکرکے رکھ دیا مگرآج بھی اِنسان کی عیاری اور اِس کی ساری مکاری کی اکڑاور اِس کی تنی ہوئی گردن اِسی طرح کبھی خم نہ ہونے والی کمر کاسیدھا پن بھی صرف اور صرف موت نے ہی توڑ دیا ہے، یعنی آج کا اِنسان موت کے سامنے بے بس اور لاچارسابن کر رہ گیاہے اور یہ آج اِپنی اِسی ناکامی پر آنسو بہاتا دِکھائی دیتا ہے۔