تحریر : اقبال زرقاش زندگی حادثات ہی کے مجموعے کا دوسرا نام ہے زندگی ایک ایسی ہی شاخ ہے جس سے حوادث کے شگوفے پھوٹتے ہیں ۔یہ حوادث مختلف انداز سے رونما ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر بیشتر ہمارے اعمال کا ہی ثمرہوتے ہیں کیونکہ حادثے کے پس منظر میں اس کے اسباب مدتوں سے مرتب ہوتے رہتے ہیں کسی شاعر نے ٹھیک کہا تھا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حاد ثہ اک دم نہیں ہوتا
آج جن حادثوں کا ذکر مقصود ہے وہ ایک دم ہوتے ہیں گو ان کی تہہ میں کچھ اسباب ہوتے ہیں مگر ان کی وقتی سنگینی ،ہنگامی کلفت اور ہوشر با کیفیت دل کو اس قدر پر درد بنا دیتی ہے کہ اسباب نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مقصود وہ قتل عام ہے جو رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں پیہم ہوتا ہے اس کے لیئے کوئی جگہ اور کوئی وقت مخصوص نہیں ہے بلکہ بازاروں،چوراہوں اور شاہراہوں میں کسی کی بھی گردنیں کٹ سکتیں ہیںاعضاء بکھر سکتے ہیں خون موجیں مار سکتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے اُڑ سکتے ہیں مراد بم دھماکے نہیں بلکہ ٹریفک کے حادثے ہیں۔
جنہوں نے آج کے ترقی یافتہ دنیا میں حیات انسانی کو اس قدر غیر محفوظ کر دیا ہے کہ دلوں کا سکون ختم ہو گیا ہے ۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی بے نام سا خوف قلب و نظر کا احاطہ کر لیتاہے ۔انسان پیدل ہو یا سوار جب تک گھر میں قدم نہ رکھ لے خوف اس پر چھایا رہتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار کے لگ بھگ افراد ٹریفک کے ہاتھوں لقمہ اجل بنتے ہیں۔پاکستان میں یہ حادثے روز بروز بڑھ رہے ہیں بلکہ اب تو صورت حال بھیانک اور جگر خراش ہو گئی ہے خاص طور پر پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس کے سلنڈر چلتے پھرے بم ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر سینکڑوں افراد کو موت کی وادی میں لے جانے کے لیئے کافی ہیں ۔آئے روز گیس سلنڈر پھٹنے سے ٹریفک حادثات میں اضافہ معمول بنتا جا رہا ہے ان حادثوں کی روک تھام اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ پبلک مالکان کا تعاون شامل حال نہ ہو ۔حال ہی میں پاکستان میں سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل کی سواری عام ہوتی جارہی ہے اور کم عمر بے شعور بچے موٹر سائیکل سوار نظر آتے ہیں چونکہ یہ عمر کھلنڈرے پن سے عبارت ہے اس لیئے ان بچوں کو نہ ٹریفک کے آداب سے واقفیت ہوتی ہے ۔اور نہ ہی اُنھیں ڈرائیونگ کے اصو ل معلوم ہیںاور نتیجہ حادثات کی شکل میں نکلتا ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا نظام اس قدر خراب ہے کہ رشوت کی معقول رقم کے عوض گھر بیٹھے لائسنس مل سکتا ہے ۔حال ہی میں ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے ایک نابینا شخص کا ڈرائیونگ لائسنس دیکھا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا شاید یہ پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ممکن نہ ہو جیسے قانون شکنی کی ورداتیں ہمارے ہاں ہو رہی ہیں بعض ایسے اداروں کی رپورٹیں بھی آئی ہیںجو جعلی لائسنس بنانے اور جعلی ڈرائیونگ سکول کے نام پر پیسے بٹور رہے ہیں ۔جب تک ڈرائیونگ لائسنس کا نظام کڑا اور سخت نہیں ہوگا حادثات کی روک تھام ممکن نہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈرائیونگ کی تربیت کے لیئے مستقل ادارے بنائے جب تک اس ادارے کی سند نہ ہو لائسنس جاری نہیں کرنا چاہیے ۔جیساکہ جاپان میں کسی شخص کو لائسنس جاری نہیں ہو سکتا جب تک وہ کسی ادارے کا تربیت یافتہ نہ ہو ۔حادثات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ شہروں میں تجاوزات کی موجودگی بھی ہے آج کی کشادہ سڑکیں بھی ان تجاوزات کی وجہ سے تنگ ہو گئی ہیں کیوں کہ فٹ پاتھ دکانیں بن گئے ہیں۔
Accidents
اور پیدل چلنے والوں کو مجبوراً ان مقامات پر چلنا پڑتا ہے جو تیز رفتا ر ٹریفک کے لیئے مخصوص ہیں ۔آج موبائل فون کا استعمال عام ہونے سے بھی ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ڈرائیور چلتی گاڑی میں موبائل فون کان میں لگا ئے محوگفتگو نظر آتے ہیں اور ان کی توجہ کسی بھی لمحہ گاڑی سے ہٹ جانے کے باعث حادثہ رونما ہو سکتا ہے ۔ہمارے ہاں اوور لوڈگاڑیا ں اور تیز رفتاری بھی حادثات کا ایک بڑا سبب ہے اس سلسلے میں چیکنگ کے لیئے ایسے افسران کو متعین کرنا چاہیے جنکی شہرت بے داغ ،دیانت اور غیر مشتبہ اور اہلیت قابل قدر ہو اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر ٹریفک کے آداب کا صحیح شعور بھی پیدا کرنا چاہیے اس کے لیئے ذرائع ابلاغ کو بھی بھر پور حصہ لینا چاہیے۔
پاکستان میں حادثات کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیدل چل رہے ہوتے ہیں یا سائیکل موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہیں ۔بسوں ،ٹرکوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کے آپس میں ٹکرانے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس کے بعد آتی ہے ۔پاکستان میں موٹر وے بننے کے بعد اس پر حادثات کی شرح بڑھ گئی تھی جسے موٹر وے پولیس نے ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرا کے کافی حد تک کم کر دیا ہے ۔ٹریفک پولیس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے ۔انسانی لہوبہر حال ایک مقدس امانت ہے ۔سڑکوں پر اس کی رسوائی انسانیت کے لیئے ایک عظیم چیلینج ہے جب تک ہم سب مل جل کر اس چیلینج کو قبول نہیں کریں گے اور اپنا اپنا فرض دیانتداری اور مستعدی سے ادا نہیں کریں گے اس وقت تک حادثات بدستور روح فرسا رہیں گے اور ہم میں سے ہر ایک زندگی میں کم از کم ایک بار حادثے کا شکار ضرور ہو گا الغرض جب تک عوام میں آداب سفر کا صحیح ذوق پیدا نہیں ہوگا ۔ٹرانسپورٹ مالکان کے اندر خدا کا خوف نہیں ابھرے گاڈرائیور تربیت یافتہ اور انسان دوست نہیں ہونگے اور جانچ پڑتال کرنے والے ارکان دیانتدار نہیں ہونگے اس وقت تک پاکستان کی شاہراوں کا یہ قتل عام نہیں رک سکتا اور نہ انسانی لہو کو سڑکوں پر بہنے سے روکا جا سکتا ہے۔