میر کارواں ہم تھے

Pakistan

Pakistan

تحریر : شاہ بانو میر
میر کارواں ہم تھے روحِ کارواں تم ہو ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو نفرتوں کے دروازے ان کو بند ہی رکھنا اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا ٬ گزشتہ سال فرانس نے لاہور حادثے پر ٹاور کو پاکستان کا رنگ نہیں دیا تو کیا ہوا؟آج دوبئی میں برج خلیفہ پر پاکستان کا پرچم روشن ہو گیا٬ یہ غلط خبر نہیں سو فیصد درست خبر ہے٬جزبے سچے ہوں تو اللہ پاک انہیں منوا ہی دیتا ہے۔

آج دوبئی چین میں پاکستان کے ہلالی پرچم ہر جانب خود لہراتے دیکھے٬ چین میں کئی اجتماعات ہوئے جن میں 14 اگست کی اہمیت کو بیان کیا گیا٬پاکستان یہ لفظ کیا طاقت رکھتا ہے اپنے اندر؟ سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مِلی نغمے کس جذب کس درد کس محبت سے گائے جاتے ہیں کہ حرف حرف اشک بنتا ہے٬تاریخ آنکھوں کے سامنے خود کو دہراتی ہے۔

یہ محبت یہ جذبے صرف اس سے منسوب ہیں جو ہر لمحہ ہر وقت ہر پاکستانی کے دل میں ہے بس اظہار کا کہیں راستہ ملنا چاہیے تو دوبئی کی طرح فضا یکلخت پاکستان زندہ باد کے جوشیلے نعروں سے گونج کر ہر دشمن کو جتا دیتی ہے “یہ زندہ باد کل تھا آج ہے اور کل بھی رہے گا انشاءاللہ ٬نام لیتے ہی جیسے نحیف و نزار ارادے کے ٹو جیسے بلند اور آہنی ہو جاتے ہیں٬اس دن کو 2017 میں ہر سال سے زیادہ تزک و اہتشام سے منایا جا رہا ہے جو دراصل عسکری حکمت عملی بھی ہے٬ دشمن بزدل ہو تو ہتھیار سے نہیں میڈیا سے وار کرتا ہے ٬عسکری قیادت اب جیسا “” دیس ویسا بھیس “” کے مِصداق میڈیا کو کامیابی سے استعمال کر کے انہیں منہ توڑ جواب دے کر پاکستان کا الگ امیج بہتر انداز میں زمانے کے سامنے پیش کر رہی ہے٬ بری بحری فضائیہ کے نئے ملی نغمے جو آئی ایس پی آر نے جاری کئے ٬

ان بہادروں کی محنت کو کردار کو اجاگر کر گئے ٬اُن بیٹوں کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اپنا آج ہمارے آنیوالے کل پر قربان کر دیا۔

ماؤں کے شہزادے جری جوان چوٹوں سے چُور زخموں سے نڈھال ٬ مگر سینہ تانے دشمن کے سامنے کھڑے وطن کی مٹی کا قرض ادا کر کے سرخرو رخصت ہوئے ٬یہ دن تا ابد ان کے لہو سے لکھی سرخ قلم کی داستان پڑھ کر ہمیں ان کی قربانیوں کی یاد دلاتا رہے گا۔

تمام دن ایک ہی نام پاکستان تمام وقت ایک پُکار زندہ باد ٬سپہ سالار کہتا ہے تو ٹھیک ہی کہتا ہے٬کہ دشمنوں کی گولیاں ختم ہو جائیں گی ہمارے جوانوں کے سینے نہی””٬یہ دلیرانہ پیغام ہر اس قوت کو لرزا گیا ہے جو پاکستان کے لئے منفی جزبات رکھتی ہے۔

دوسری جانب 15 اگست کو مودی سرکار نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک اس دہشت گردی کی جنگ میں معاونت کر رہے ہیں٬ یعنی صریحا کہ دیا گیا کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک نہیں کئی دشمنوں کی پکائی ہوئی کھچڑی ہے٬اللہ پاک اس وطن کے بیٹوں کی قربانیوں کی اہمیت اور خون کی قدرو قیمت ہمارے بڑہکیں مارتے سیاستدانوں کو بھی عطا کر دے۔

تعمیر وطن مستقل جاری ہے کہ بنیادوں میں ماؤوں کے لاڈلوں کا لہو بھرا ہے تب بھرائی پختہ اور بہترین ہوئی ہے اور ایسی ہوئی ہے کہ الحمد للہ باوجود طوفانوں کے سخت تھپیڑوں کے٬ موسمی مخالف سمت چلنے والی تند و تیز آندھیوں کے ٬ گرج چمک کے ساتھ برسنے والی موسلا دھار بارش کے بظاہر بیرونی عمارت قدرے خستہ حالی کا شکار ہے٬مگر جڑیں بنیاد انشاءاللہ رہتی دنیا تک اسی طرح طاقتور رہے گی اور گرتی دیواروں کی تعمیر پھر سے یہ شیر جوان کرتے رہیں گے٬کس کا ڈر ؟جب محافظ اتنے جانباز اور جری ہوں تو ایسی قوم کا مستقبل انشاءاللہ تابناک ہے۔

اصل پھپھوندی زنگ یا دیمک اس ملک کی یہ بے عقل سیاست ہے ٬ جس میں ہر قسم کا سیاسی دہشت گرد آ چکا ہے ٬ سیاستدان ملک کے آئینہ دار ہوتے ہیں٬مگر جب ملک میں باقاعدہ سیاسی ادارے نہ ہوں اور ان کی سیاسی تربیت نظم و ضبط برداشت تحمل اور تہذیب جیسے اوصاف تربیت سے نہ دیے گئے ہوں ٬تو سیاست وبال جان بن کر عوام کیلیۓ ملک کیلئے تباہ کُن ثابت ہوتی ہے٬ سیاستدانوں کا اصل کام چناؤ کے بعد اپنے ملک کو آگے لے جانا ہے۔

افسوس کہ ہمارے ملک کی کمزور سیاست منتخب نمائیندے کو اس لئے کام سے روکتی ہے اور اس کے راستے میں روڑے اٹکاتی ہے ٬ کہ اس کا کام کل بولے گا اور وہ عوام کے سامنے صفر ہوں گے٬ اس سیاسی دہشت گرد سوچ کو ختم کرنا ہوگا٬ ملک میں منتخب نمائیندے کو اس کا وقت اور کام پورا کرنے کے بعد اس کا احتساب ہونا چاہیے ٬گھر بار کی رونقوں سے محروم رشتوں کے احترام سے عاری ٬ ہر بد لحاظی کی سطح کو عبور کرنے والا یہ سیاسی کلچر عوام کو کہاں لے جا رہا ہے۔

رول ماڈل سیاستدان جب ایسی ہلکی گفتگو کریں گے تو وہ کیا تربیت کر رہے ہیں نئی نسل کی؟ ایک خاتون نے تو قدرے خٰفگی سے کہاکہ اس شخص نے تو ہماری تربیت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے بچوں کو خود جلسے دکھاتی تھی مگر اچانک محسوس کیا کہ بچے ایک دوسرے کو اوئے توئے کہنے لگے ہیں ٬ اس دن کے بعد یہ آواز گھر میں نہیں گونجتی٬ سوچنا تو ہو گا اس ملک کے سیاستدانوں کو جنہوں نے سیاست کو “”ملک گیر”” نہیں”” گھر کی لونڈی ” بنا لیا۔

کل 14 اگست کے پروگرامز سارا دن اہل وطن کا لہو گرماتے رہے شہادتوں کی داستانیں رُلاتی رہیں ٬اس بار عسکری قیادت کی بہترین حکمت عملی تھی عوام کو نئے پاکستان سے روشناس کرایا جائے ٬ وہ پاکستان جسے اب بین القوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہے٬دشمنوں کی پھیلائی دہشت گردی کی جنگ سے ایک بار پھر نئی طاقت نئے جزبے سے ابھرتے کامیاب پاکستان کو دنیا خوش آمدید کہ رہی ہے۔

ایسے مشکل کڑے وقت مں جب دشمن ہر طرف سے حملہ آور ہو کر پاکستان کو تنہا کرنے کے مذموم مقاصد رکھتا ہے ہمیں اپنے اداروں پر تنقید کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنا ہُنر ہر سطح پر پیش کر کے ان کا ساتھ دینا ہے ایک عظیم پاکستان کیلیۓ ٬ہر اہل قلم کو ہر اہل دانش کو اہل بصیرت کو چاہیے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کی اپنے قابل لوگوں کو بیان کریں ان کیلیۓ لکھیں ٬ شاباش دیں انہیں ٬ انہیں سراہیں٬یہ ہے تو مشکل کام مگر اپنی ذات سےا ٹھ کر جو دوسروں کیلیۓ کچھ کر گیا آج وطن کا وہی سپاہی ہے ٬ اور گزرے آزادی کے دن نے بتا دیا کہ یاد وہی کیا جائے گا جو سچے دل سے اور اخلاص کے ساتھ کچھ کر گیا۔

آئیے ہم سب مل کر ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے ایک دوسرے پر منفی تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح سے نئے روشن پاکستان کا آغاز کریں اور یہ تبدیلی ہمارے اُن جانباز شہداء کو بہترین خراج تحسین ہے جن کی سانسوں کے خاتمے پر ہماری زندگی بحال ہوئی ٬پاکستان کا جشن اصل حقدار اس کے شہید ہیں ٬ ان کے کارنامے اب نئی نسل کو بیان کرنے ہیں ٬ مگر وہ تبھی بیان کر سکیں گے جب ہم ان کو رقم کریں گے ٬ یا داستاں کی صورت بیان کریں گے٬ کیونکہ

میر کارواں ہم تھے روحِ کارواں تم ہو ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر