تحر یر ۔ شہزاد حسین بھٹی پاکستان میں بد قسمتی سے منشیات کی لعنت کا رواج پاناغیروں کی بھی سازش ہے اور اپنوں کی منافقت بھی۔ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستانی سراپا عمل نہ رہیں بلکہ فکری اور جسمانی طور پر کھوکھلے ہو جائیںجس معاشرے میں منشیات نوجوان نسل کی رگوں میں اُتر جائے وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا اس معاشرے میں نیکیوں کے پھول مرجھا جاتے ہیںعدل و انصاف رخصت ہو جا تا ہے بصیرت و عبرت سے نگاہیں ہٹ جاتی ہیں نشہ میں چور معاشرہ سعی و کوشش کے اعتبار سے صفر ہو جاتاہے نشہ وقتی سکون کے حصول کے لیئے کیا جا تاہے منشیات کے دامن میں پناہ لینے والا بے حیا ء بھی ہو جا تا ہے
بزدل بھی وہ حالات کی تلخیوں اور واقعات کی سختیوں سے آنکھیں چار نہیں کر سکتا وہ وقت کی سنگین چٹانوں پر اپنے پنجے نہیں گاڑ سکتا وہ حوادث کا شکار تو ہو سکتا ہے حوادث کا رُخ نہیں بدل سکتا ۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے نوجوان طبقہ سگریٹ نوشی سے شروع ہو کر چرس،ہیروئن اور شراب کا عادی بن جاتا ہے اور معاشرہ خاموش تماشائی بنا رہتا ہے حتیٰ کہ منشیات کے عادی افراد سے نفرت شروع کر دی جا تی ہے انہیں محبت کا سہارا دینے کی بجائے تنہا چھوڑ دیا جا تا ہے اور ایسے افراد اکٹھے ہو کر ایک گروہ کی شکل اختیا ر کر لیتے ہیں اور معاشرے کے لیئے وبال جان بن جاتے ہیں پاکستان میں اس وقت منشیات کے عادی افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔رونا اس بات کا ہے کہ بسا اوقات منشیات کی سر پرستی وہی لوگ کر تے ہیں جن کا کام منصب کے اعتبارسے اس کا سد باب کر نا ہے
جب حالات اس قدر دگر گوں ہو جائیں اور کفر کعبے ہی سے پھو ٹے تو ایمان اور اسلام کہاں رہے گا اور فکرو عمل میںا صلاح وفلاح کا سلسلہ کیسے چل سکے گا ۔پاکستان کے ہر شہر میں منشیات فروشی کی سرپرستی جب با اثر افراد اور پولیس کی ملی بھگت سے کی جا رہی ہو تو پھر اس لعنت کو کون روکے گا ؟منشیات کی یہ لعنت ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو اپنے نر خے میں لے چکی ہے ہماری نوجوان نسل تیزی سے منشیات کی جانب راغب ہو رہی ہے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کو اپنے اپنے دائرے میں اس لعنت کے خلاف جہاد کر نا ہو گا جب تک اہل دل باہوش طبقہ خلوص نیت سے نہیں اُٹھے گا منشیات کا طوفان نہیں تھم سکتا ۔ہمیں اسلام سے محبت اور وطن عزیز سے شفتگی ا ُ بھارنا ہو گی منافقت کو ترک کر نا ہو گا
کیونکہ منافقت سے ہم کسی مثبت اور تعمیری کردار کی توقع نہیں کر سکتے ۔ہمارے منشیا ت کے عادی افراد کے لیئے ملک بھر میں سینکڑوں ادارے نجی سطح پر بنائے گئے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر ادارے اپنی اشتہاری مہم کے ذریعے منشیات کے عادی افراد کے علاج کے نام پر لوٹ ما ر کا بازار گر م کئے ہوئے ہیں اور بعض این جی اوز کے تحت کام کرنے والے ادارے بظاہر تو خدمت خلق کے جذبے کا پرچار کرتے ہیں لیکن ان کا اصل کا م منشیات کے عادی افراد کے لواحقین کی جیب خالی کر نا ہے اس بات کا انکشاف اس وقت بھی ہو اجب اٹک کا رہائشی ایک مفلوک الحال ساٹھ سالہ شخص تبارک علی میرے پاس آیا اور بتایا کہ اُس کا بیٹا طاہر علی جو کہ رکشہ چلاتا تھا غلط سوسائٹی کی وجہ سے منشیات کی لعنت کا شکار ہو گیا
Drugs
ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا پریشانی کے اس عالم میں اس کا مقامی سطح پر علاج کروانے کی کوشش کی مگر مالی استطاعت نہ ہونے پر مکمل علاج نہ کروا سکا اچانک اس نے ایک مقامی اخبار میں ایک اشتہار دیکھاجس میں منشیات اور ذ ہنی امراض کے شکار افراد کا علاج خدمت خلق کے جذبہ کے تحت کرنے کے دعوے دار ایک ادارے ” اسلامک سینٹر ” CARING HOUSE اسلام آباد کا نا م چھپا ہوا تھا چنانچہ وہ اپنے بیٹے کو لے کرمذ کورہ سنٹر پہنچا اور اپنے بیٹے کو داخل کر وا دیا چھ سات ماہ کے علاج کے بعداس ادارے کی طرف سے فون آیا کہ اپنے بیٹے کو لے جائیں وہ صحت یاب ہو چکا ہے
تبارک علی نے بتایا کہ وہ کسی سے کرایہ مانگ کر مذکورہ سنٹر پہنچا توادارے کے عملے نے اسے ایک لاکھ دس ہزار کی رسید تھما دی تبارک علی رسید کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کا علاج خدمت خلق کے جذبے کے تحت کیاگیا مگر اتنی بڑی رقم شاید اس نے اپنی زندگی میں نہ دیکھی ہو جس کی ادائیگی کا مطالبہ وہ کر رہے تھے اس نے وہاں ادارے کے عملے کی بہت منت سماجت کی مگر جواب ملا کہ پیسوں کا بندوبست کرکے اپنا بیٹا لے جا سکتے ہو تبارک علی نے بتایا کہ اس سلسلے میں ا ُ س نے وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو درخواستیں بھیجی مگر کوئی جوا ب موصول نہ ہو ا اور اس کا بیٹا بدستور مذکورہ سنٹر میں ہے
تبارک علی نے مخیر حضرات سے بھی درخواست کی کہ وہ اتنی بڑی رقم دینے سے قاصر ہے لہذا اس سلسلے میں اس کی مدد کی جائے ۔یہ دل خراش واقعہ ہمارے معاشرے کے منافقانہ رویے کی عکاسی کرتاہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اداروں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں علاوہ ازیں منشیات کی روک تھام کے لیئے عملی اقدام اُٹھانے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر ایسے ادارے قائم کیے جائے جہاں منشیات کے عادی افراد کا فری علاج کیا جاسکے اور اس لعنت کو ملک سے پاک کیا جائے۔