تحریر: طارق حسین بٹ دنیا کا کوئی انسان آزمائش اور امتحان میں سے گزرے بغیر کامیابی کی مسند پر نہیں بیٹھ سکتا۔ اس میں نبیوں کو بھی استثناء حاصل نہیں ہے۔ عام انسان تو کسی کھاتے میں نہیں ہیں کیونکہ جو معیار نبیوں کے سر وں سے نہیں ہٹایا گیا اسے عام انسانوں کے سروں سے کیسے ہٹا لیا جائے گا۔قرآنِ حکیم نے اسی معیار کو ( لیسَ لِل انسانَ اِ لا ما سعی) کی ایک ابدی حقیت کے روپ میں محفوظ کر کے انسانوں کے عروج و زوال کا ایسا سنہری اصول مقرر کر دیا ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے ۔ہر کامیابی خونِ جگر مانگتی ہے،قربانی کا تقا ضہ کرتی ہے،جر ا توں کا مطالبہ کرتی ہے،مشکلات موانعات کے سامنے ڈٹ جانے پر اصرار کرتی ہے تو پھر کہیں جا کر قدرت کسی انسان کے حصے میں کامیابیوں کے پھول کھلاتی ہے
وہ کامیابی جو محنت کے بغیر ملتی ہے نا پائدار ہوتی ہے۔اس میںگہرائی نہیں ہوتی، اس میں اپیل نہیں ہوتی اور اس میں اثر انگیزی نہیں ہوتی۔کبھی کبھی بعض انسانوں کو اتفاقی کامیابی بھی حا صل ہو جاتی ہے لیکن اس سے ان کی شخصیت میں تنوع، پختگی اور گہرائی نہیں آتی۔انسان حکمران تو بن جاتا ہے لیکن اس کی شخصیت خام ہی رہتی ہے کیونکہ وہ ایک مدبر کا مقام حا صل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ زندگی کی آزمائشیں جو مدبر بننے کیلئے ضروری ہوتی ہیں ان سے اس انسان کو کبھی پالا نہیں پڑا ہوتا ۔وہ حاکم تو بن جاتا ہے
لیکن راہنما نہیں بنتا کیونکہ راہنما بننے کے لئے جن اوصاف کی ضرو رت ہو تی ہے وہ اس سے تہی دامن ہوتا ہے۔ حکمران بن جانا تو کوئی اہم معرکہ نہیں ہوتا کیونکہ کسی نہ کسی نے تو حاکم بننا ہی ہوتا ہے لیکن راہنما بننا بڑا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے اور ریہ ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتا کیونکہ ایں چیزے دیگر است جو قربانی مانگتی ہے ۔ اگر ہم پاکستان کا ذکر کریں تو ان ٦٧ سالوں میں بے شمار حاکم آئے اور چلے گئے جن میں سے اکثر کے تو عوام کو نام بھی یاد نہیں لیکن جو راہنما تھے ان کے نام پاکستانیوں کے دلوں پر نقش ہیں ۔اسی لئے تو اس دیدہ ور نے کہا تھا کہ ۔،۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے۔۔۔بڑ ی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا عمران خان پر قدرت کی خاص کرم نوازی ہے کہ اس کا سیاسی کزن دھرنا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے کیونکہ میدان اکیلے ہی فتح کئے جاتے ہیں۔دوسروں کے سہارے کبھی کامرانی کے قدم نہیں چومے جاتے۔انسان اپنی قوت اور انا کے زور پرہی فاتح بنتا ہے اور انانیت کی یہ قوت اسے خدا کی طرف سے مفت عطا ہوتی ہے۔انسان کی جراتیں اور بسالتیں ہی ایک روز اس کی کامیابی کی بنیادیں رکھتی ہیں۔جوانسان دوسروں کی گود میں بیٹھ کر فتح کے خوا ب دیکھتا ہے وہ احمق ہے کیونکہ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے والا مردِ میدان نہیں کہلاتا۔مرد ِ میدان تو سب کے سامنے اپنی ذات کو منواتا ہے۔ایسے کرتے وقت کبھی کبھی موت اس کو گرا بھی دیتی ہے لیکن مردِ میدان موت سے کب زیر ہوتا ہے۔
اپنے قوتِ بازو پر میدان میں ڈٹنے والا زمانے کی طنابیں بھی کھینچ کر رکھ دیتا ہے اور موت کی وادی سے بال بچ کر نکل بھی جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے لانگ مارچ اور دھرنے میں بڑی بڑھکیں ماری تھیں لیکن جب امتحان کا وقت آیا تواس کا دل بیٹھ گیا اور اپنا چہرہ ایک نئے موقف کی اوٹ میں چھپا کر بچائو کا طریقہ ڈھونڈ لیا۔انھوں نے ماڈل ٹائون کے ان بے گناہ شہیدوں کے خون کو بھلا کر سودے بازی کی راہ اختیار کر لی لیکن انھیں اتنا یاد رکھنا چائیے کہ جو خون کا سودا کرتا ہے وہ آخرِ کار رسوا ہوجاتا ہے۔عمران خان کے لئے تنِ تنہا دھرنا جاری رکھنے کی راہ بڑی کھٹن راہ ہے
Tahir ul Qadri
لیکن کھٹن راہ سے ہی تو امیدوں کے چراغ جلتے ہیں۔کٹھن راہوں میں کھڑے ہونے والوں کو ہی تو دنیا آنکھوں پر بٹھا تی ہے۔انھیں خوش ہو جانا چائیے کہ اب وہ پاکستانی عوام کی واحد امید ہیں۔کروڑوں انسانوں کی دلوں کی دھڑکن بننا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے لیکن یہ مسند خو نِ جگر دئے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہر وہ چیز جو لانگ مارچ سے قبل کہی تھی اسے خود ہی اپنے پائوں تلے روند ڈالا اور انقلاب کو بیچ چوراہے میں چھوڑ کر کینیڈا سدھار گئے اور اپنے ا س یو ٹرن کو عوامی تحریک کی ممبر سازی کا نام دے دیا۔انقلاب کیا اس طرح رونما ہو تے ہیں کہ انقلاب کے درمیان ممبر سازی شروع کر دی جائے ؟انھیں خبر ہونی چائیے کہ عوام بڑے باشعور ہیں اور وہ شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں،کاش وہ عوام کے ساتھ ہاتھ کرنے سے پہلے اتنا تو سوچتے کہ عوام نے انقلاب کی خا طر اپنی جانوں کے نذرانے دئے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا شروع کرنے سے قبل اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو کو پنجاب حکومت کے خوف سے ملک سے باہر بھیج دیا تھا ۔ اپنے بیٹوں کی زندگی انھیں اپنے مریدوں سے زیادہ عزیز تھی اس لئے ان کا پاکستان میں رکنا خطرات سے خالی نہیں تھا لہذا انھیں باہر بھیجنے میں ہی عافیت جانی لیکن دوسروں کا لہو تو پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہے اس لئے ان کے بہنے سے دل کو کچھ نہیں ہوتا تبھی تو ماڈل ٹائون کے شہیدوں اور ریڈ زون کے شہیدوں کے خون سے صرفِ نظر کر کے انقلاب کو مفاد پرستی کے سفید کفن میں لپیٹ کر اپنی راہیں علیحدہ کر لیں۔لانگ مارچ کے دنوں میں تو زبان رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی
لیکن جب بھاگنے کا فیصلہ کیا تو پھر میاں برادران کا استعفی اور حکومت کی رخصتی کچھ بھی یاد نہ رہا۔کہاں الیکشن کمیشن کے خلاف دھرنے دئے جاتے تھے لیکن اب اسی الیکشن کمیشن کو قبول کر کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور دھرنا قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔ دو ہفتوں میں کونسی زمینی حقیقت تبدیل ہوگئی ہے جس سے انھوں نے انقلاب کی جگہ انتخابات کا فیصلہ کر لیا۔اگر اتنا دم خم نہیں تھا اور انقلاب کے لئے زمین ہموار نہیں تھی تو پھر غریب کارکنوں کا خون بہانے کا کیا مقصد تھا۔؟
جنوی ٢٠١٣ میں بھی لانگ مارچ ہوا تھا اور اس وقت بھی ڈاکٹر طاہرالقادری ایک معاہدہ کر کے اسلام آباد سے لوٹ گئے تھے لہذا بہت سے حلقوں کو ان پر بھروسہ نہیں تھا۔انھیں شک تھا کہ وہ پچھلے سال کی طرح کوئی نیا ڈرامہ کریں گئے اور کسی سودے بازی کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر پلٹ جائیں گئے لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری کا اصرار تھا کہ کچھ بھی ہوجائے اس دفعہ خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گئے بلکہ انقلاب ببرپا کر کے جائیں گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب انقلاب اور میری شہادت میں سے ایک چیز ہو گی۔یا تو انقلاب برپا ہو گا یا پھر میں شہادت کا اعزاز پائوں گا۔اپنے موقف میں قوت بھرنے کے لئے انھوں نے گنبدِ خضرا کی قسمیں کھائیں او ربِ ذوالجلال کو گواہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ سورج تو مغرب سے نکل سکتا ہے لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری انقلاب برپا کئے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیگا لیکن کروڑں آنکھوں نے دیکھا کہ محبوبِ خدا کی قسمیں کھانے والا انسان چند ہفتوں کے بعد ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے اب بھی انقلاب کا نعرہ بلند کئے جا رہا ہے لیکن اب اس کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور عوام ان کے اصلی چہرے سے آگاہ ہو گئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام ملا ازم سے ہمیشہ ہی نالاں رہے ہیں کیونکہ وہ وقت آنے پر غداری کرتے ہیں۔یہی حال تو ٹیپو سلطان کے ساتھ بھی ہواتھا اوران کے مصاحبین نے اپنے ہی سپہ سالار کے خلاف انگریزوں سے ساز باز کر لی تھی اور یوں شیرِ میسور کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیرِ میسور تو اپنی جوانمردی کی وجہ سے اب بھی محبوبِ خلائق ہے جبکہ انگریزوں کے چمچے اب بھی نفرتوں کی علامت ہیں ۔کچھ بھی ہوجائے ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی سیاسی قلا بازیوں کی وجہ سے عوامی نظر میں معتوب رہیں گئے جبکہ عمران خان اپنے موقف کے ساتھ یکجہتی کی وجہ سے عوامی پذیرائی کے حقدار بنیں گئے۔یہ راہ کانٹوں کی راہ ہے لیکن گلاب تک پہنچنے کیلئے انہی کانٹوں سے گزرنا پڑتا ہے اور آخری جیت انہی کا مقدر بنتی ہے جو میدان میں اپنے موقف کی سچائی کی خاطر ڈٹ جاتے ہیں۔ عمران خان کرپشن کے خاتمے اور انصاف کی خاطر اگر ڈٹا رہا تو جیت اسی کا مقدر ہو کیونکہ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے اور ازل تک یہی ہوتا رہے گا اور تاریخ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ دل والے ہی آخرِ ِ کارجیتتے ہیں۔،۔