تحریر: زارا زکیہ ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا کی اہمیت سے اِنکار کسی طور ممکن نہیں۔ یہ کہا جائے کہ پیغامات و خبر کو ہم تک پہنچانے میں یہ اہم کردار اَدا کر رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ہم کسی بھی ملک، شہر، قصبے و گاؤں کی خبر سے بے خبر نہیں رہ سکتے۔حالات ِموسم ہو یا حالاتِ دُنیا، ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات ہویا حالاتِ حاضرہ، کھیلوں کا میدان ہوسیاسی میدان، ہر خبر فوراً سے پہلے نشر کر دی جاتی ہے۔ٹی وی آن کریں تو ہر چینل پرتازہ ترین نیوز چلتی نظر آئے گی جہاں تازہ ترین صورتحال سے لوگوں کو مطلع کیا جا رہا ہوتا ہے۔ کوئی کھیلوں کی خبروں کا منتظر رہتا ہے تو کوئی انٹرٹینمنٹ نیوز سے محظوظ ہوتا ہے، کوئی سیاسی سرگرمی جاننے کا منتظر رہتا ہے تو کسی کو حالاتِ حاضرہ جاننے کی جلدی ہو تی ہے۔
یہی نہیں کوئی بھی اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں مکمل اپ ڈیٹ ہوگا۔ دیکھا جائے تواِس لحاظ سے میڈیا اپناکام بخوبی اور بہ احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ لوگوں کوہر خبر سے ہر وقت اَپ ڈیٹ کرتا ہے۔ یہ بات الگ کہ اِنٹرنیٹ کے بڑھتے رُحجان سے اِس پر تھوڑا بہت اثر پڑا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی مصروفیت کے باعث نیوز نہیں دیکھ سکتے یا اخبار نہیں پڑھ پاتے وہ اِنٹرنیٹ سے ہر طرح کی خبر جان لیتے ہیں۔ موبائل الرٹس نے تو اس کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ لیکن آج بھی ایک مخصوص طبقہ ہے جو ٹی وی نیوز دیکھنے اور اخبار پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تو نیوز و معلومات ِ عامہ کی بات ہے جس میں میڈیا کا کردارکسی حد تک بلا شبہ بہت اچھا ہے۔ لیکن اگر تہذیب و تمدن، ثقافت، رہن سہن، اِسلامی اِقدار اور ویلیوز کی بات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم معاشی، معاشرتی اور اِسلامی طور پر کس طرف کھڑے ہیں۔
میڈیا کس طرح ہمارے ذہنوں کو، ہماری سوچ و افکار کو بدل رہا ہے، ہماری زندگی میں کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔آیئے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں؛بچے کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ملک کی آئندہ کی ترقی کا اِنحصار اِن معصوموں پر کیا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر اپنے وطن کیلئے کام کریں گے۔ لیکن میڈیا نے بچوں کے معصوم ذہنوں کو جکڑرکھا ہے، اُنکو وقت سے پہلے میچور کر دیا ہے۔بلاشبہ یہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں لیکن میڈیا کے کردار کوبھی تو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ بچوں کے لب و زباںاورعادات و اطوار خراب کرنے میں انڈین چینلزاورپروگرامزکا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ہماری بات چیت میںہندی الفاظ کا استعمال اِتنازیادہ ہوتا جارہا ہے کہ یہ ہماری روزمرہ بول چال کا حصہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ پھ کو’ ف’ بولنا، خ کو’ کھ ‘بولنا عام روٹین ہو گئی ہے۔انڈین تہذیب و ثقافت کی چھاپ کافی گہری ہے۔ شادی بیاہ سے لیکر ہندووانہ رسمیں بچوںسے لیکر بڑوں تک کو رَٹ چکی ہیں۔ نت نئے ملبوسات و جیولری خواتین کو اپنی طرف راغب کرتی محسوس ہوتی ہے یا یوں کہیں خواتین اُس کے زیرِ اثرآجاتی ہیں۔
Pakistani Channel
خیریہاںبات انڈین چینلز کی نہیں رہی ، پاکستانی چینل اُنکے ڈراموں کو مکمل سپورٹ اور پروموٹ کررہے ہیں۔بلکہ پاکستانی چینل میں انڈین ڈرامے دِکھانا ایک عام معمول بن چکاہے۔ کوئی بھی پاکستانی چینل دیکھ لیں وقت تخصیص کرکے انڈین و پاکستانی ڈرامازوپروگرامزرینڈملی دِکھائے جاتے ہیں۔فلم ہو یا ڈرامہ، ڈانس کا پروگرام ہو یاموسیقی کا،غیر ملکی چینل میں ہر طرح کی شرم و لحاظ کو بالائے طاق رکھ کر سب پیش کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُنکی تہذیب کا حصہ ہے، اُنکا وے آف لائف اورپارٹ آف لائف ہے۔لیکن صدافسوس کہ پاکستانی ڈرامے اُن سے پیچھے نہیں۔اِسلامی ویلیوز و اِقدار کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔۔پاکستانی ڈراموں تک میں فحاشی وبے حیائی کا عنصر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ایسے ایسے ڈرامازپیش کئے جا رہے ہیں جنکوبچوں کیساتھ تو دور کی بات فیملی کیساتھ بیٹھ کربھی نہیں دیکھ سکتا۔ہر ڈرامہ مختلف کہانی لیکر لڑکا لڑکی کی محبت کے گرد گھومتا ہے جہاں محبت بھرے جملے بول کر پیار کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، قسمیں کھائی جاتی ہیں، وعدے لئے جاتے ہیں وغیرہ۔کچھ ڈراموں میں ڈائیلاگز اورایکٹ کے ذریعے میاں بیوی کے تعلقات تک مکمل اوپن کرکے دِکھایا جاتا ہے جس سے جنسی اِنتشار پھیل رہا ہے۔ مختصراًفیملی ڈراموںکی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہوتی جا رہی ہے۔اورانکی رفتار دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ قت جلد آئے گا جب فیملی ڈرامہ بننا ہی بند ہو جائے گا۔
بات ہو میڈیا کی تو مارننگ شوز کو کیسے بھولا جا سکتا ہے جو اپنا کام بہت بہتر اورتیزی سے انجام دے رہے ہیں۔ درحقیقت نت نئے فیشن کو متعارف کروانے کا سہرا مارننگ شوزہی کو جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مارننگ شوز کا کام ہی فیشن کو پروموٹ کرنا ہے تو غلط نہ ہوگا۔روز صبح ہرچینل میں مارننگ شولگا ہوتا ہے جہاں اینکر نت نئے جدید تراش خراش کے لباس میں موجود شو ہوسٹ کر رہی ہوتی ہیں۔ ڈوپٹہ برائے نام گلے کی ایک طرف لٹکایا ہوتا ہے جیسے اَن چاہا بوجھ ہو۔کبھی تو ایسے ٹاپکس کو ڈسکس کیا جاتا ہے جو قابلِ اعتراض ہوتے ہیں۔ دُکھ کا مقام یہ کہ سو کالڈماڈرن اِزم کی اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ لہذٰا ہماری نوجوان لڑکیاں ایسے نام نہاد فیشن کی اندھا دھند تقلید کر رہی ہیں۔خوب سے خوب تر اورخوبصورت سے خوبصورت تر دِکھنے کی خواہش اِن شوزہی کی دین ہے جسکی پیروی کرنا ہر لڑکی اپنا فرض سمجھتی ہے خواہ وہ افورڈ کر سکتی ہو یا نہیں۔ڈوپٹہ سر پر اوڑھناخواب بن گیا ہے۔ ڈوپٹے کے استعمال کوکم کرتے کرتے لباس سے مکمل ختم کر دیا ہے گویا ڈوپٹہ اوڑھنے سے حسن ونزاکت میں کمی ہو جائے گی۔ مانو مخمل میں ٹاٹ کا پیوندہو۔ملکی سیاسی سرگرمیوں کی بات ہو تو میڈیا کس طرح پیچھے رہ سکتا ہے؟ ایک چینل کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے تو دوسری طرف اور چینل اُس کے خلاف بولتا ہے۔ مختلف چینلز میں ٹاک شاک میںکہیں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکو بلا کر لمبی لمبی ڈسکشن کی جاتی ہے تو کہیں اُنکی غیر موجودگی میں بحث کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ چھیڑ دیا جاتا ہے۔ ایک جماعت دوسری جماعت کے بخیے ادھیڑتی ہے، ایک دوسرے کے نقطہ نظرکوغلط کہا جاتا ہے، مبالغہ آمیزی کی اِنتہا کر دی جاتی ہے،کوئی جانبدار ہے تو کوئی غیر جانبدار۔جو بھی ہے یہ بہت غلط بات ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ ہر چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں مثبت و منفی، اچھا و برا۔
اب یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اُس چیز کو یوٹیلائز کرتے ہیں،کس طرح اُسکو استعمال میں لاتے ہیں کہ اچھے و مثبت اثرات نمایاںہوں۔۔ میڈیا چونکہ ہماری زندگیوںمیں حاوی ہے ، ہم اس سے سیکھ لیتے ہیں اِسلئے اِسلامی اِقدار کی پابندی، تہذیب و ثقافت کا خیال رکھنا اِسکی ذمہ داری ہے۔ماڈرن ہونا بری بات نہیں بلکہ ماڈرن اِزم کے نام پر عریانیت و فحاشی بری بات ہے، فیشن کے نام پرچست و تنگ لباس بری بات ہے، پروگرامز اور ڈراماز میںڈوپٹے کا تصور ختم کرنا بری بات ہے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کی گروپ بندی ختم کی جانی چاہیے تاکہ ایک دوسرے سے بغض، عداوت، کدورت و کینہ کی فضاء ختم ہو۔میں سمجھتی ہوںاگر میڈیا ان باتوں کا خیال رکھے تو پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور امن میں یہ مکمل معاون ثابت ہو گا۔