تحریر: ڈاکٹر سید صلاح الدین بابر یہ گذشتہ برس کی بات ہے۔ لندن ،نیو یارک میں برقی قمقموں کی روشنی میں نہاتے کلینکوں اور دوا خانوں تک، فضامیں عام طور پرایک نیا فقرہ دعوت سماعت دے رہا تھا: ”مریض کی عزت کریں۔”جب کبھی ہم مغربی ممالک سے شائع ہونے والے میڈیکل میگزین میں طبی اخلاقیات سے متعلق اس قسم کی کہانیاں اور خبریں پڑھتے ہیں تو بے ساختہ یہ سوال ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ خود کو سب سے زیادہ مہذب اور انسانی قدروں کا محافظ کہنے والے والے ترقی یافتہ مغربی سماج کے ان اسپتالوں میں آخر ایسی کون سی مجبوری درآ ئی ہے کہ وہاں”مریض کی عزت کیجئے” جیسی مہم چلانے کی ضرورت درپیش آ رہی ہے۔میں سمجھتاہوں کہ وہاں اس کی تربیت اور مہم کو مستقبل اور باقاعدگی سے کروایا جاتا ہے۔
جب ہم مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ایک وہ یادگار دور تھا جب مسلمان ساری دنیا میں معزز و معتبر سمجھے جاتے تھے۔ مشرق و مغرب میں وہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی تحقیقات سے پوری انسانیت استفادہ کرتی تھی۔ اس دور میں کئی مسلم دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے سائنس اور فلسفے’ طب اور مذہب’ شاعری اور موسیقی’ نفسیات اور سماجیات کے علوم میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ بو علی سینا نے طب کے بارے میں جو کتابیں تخلیق کیں وہ کئی صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ساری دنیا کے جدید علوم کا مطالعہ اور ان سے استفادہ کریں۔ بو علی سینا نے نفسیات کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھی جس کا نام ‘کتاب النفس’ تھا۔
اس کتاب میں انہوں نے ذہنی بیماری ”مالیخولیا” کے بارے میں’جو اب ڈیپریشن کے نام سے جانی جاتی ہے’ ایک اہم باب رقم کیا۔ مغربی دنیا میں بو علی سینا کا اتنا احترام کیا جاتا ہے کہ وہ انہیں سقراط اور جالینوس کی طرح طب کا شہزادہ سمجھتے ہیں۔یہ دور نویں صدی عیسوی سے بارھویں صدی عیسوی کا دور ہے۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی! طب (میڈیکل )ایک ایسا شعبہ ہے جسے مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اس کا تعلق انسانی زندگی کے علاج اور بچائو سے ہے۔پاکستان میں طبی تعلیم کو جس طریقے سے لیا جاتا ہے ۔میرا تجربہ یہ ہے کہ دنیا سمیت پاکستان میں بھی اس شعبے کو اسے عزت کے نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگرچہ اس شعبے میں کمائی(آمدن) دیگر شعبوں سے کم ہے۔ اس شعبے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انتہائی ذہین اور قابل طالب علم اس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں۔والدین کی مالی حیثیت مضبوط ہو یا کمزور مگر وہ اپنے بچوں کو میڈیکل کے شعبے میں دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔شعبہ تدریس اگرچہ بہت عمدہ اور مثالی شعبہ ہے تاہم خوش قسمتی سے میڈیکل میں طب اور تدریس ایک ساتھ آ جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں، بحیثیت ڈاکٹر میرا مشاہدہ ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں داخلے سے قبل ان سے اس شعبے میں آنے کی بنیادی وجہ ایک تحریری بیان کی صورت میں لی جاتی ہے جس میں طالب علم سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی میں عملی طور پر کبھی اس نے میڈیکل کے شعبے میں جزو وقتی کام کیا ہے؟ یا کوئی تجربہ حاصل کیا ہے؟۔وہاں اے ۔لیول کی تعلیم کے دوران اس بات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ طب سے متعلق بنیادی اخلاق و ضوابط بارے طلباء کو آگہی دی جائے ۔وہاں انٹرن شپ کا رواج ہے طلباء وہاں سرکاری و نجی ہسپتالوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کر کے اپنے تجربے اور اہلیت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو خیر الٹی گنگا بہتی ہے یہاں نظام تعلیم ہی قابل اعتبار نہیں کہ ایف ایس سی کا امتحان عمدہ نمبروں سے پاس کرنے کے باوجو میڈیکل میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ لیا جاتا ہے جس کا بیرون ممالک میں کوئی رواج نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ۔وہاں بورڈ کے امتحان پر اعتبار اور یقین کیا جاتا ہے۔پاکستان میں مبینہ تفصیلات کے مطابق انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والی اکیڈمیاں انٹری ٹیسٹ قبل از ٹیسٹ آئوٹ کر دیتے ہیں جس سے معیار فوت ہو جاتا ہے ا ور صرف چند مخصوص افراد کے چشم و چراغ ہی ڈاکٹر بن پاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں میڈیکل کالجوں کا قیام ایک بہت بڑا منصوبہ بنا دیا گیا ہے اس کا بڑا مقصد بڑی اور شاندار عمارت کا دکھاوا ہے ۔ میڈیکل کی تعلیم کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام متعلقہ عمارتوں کو ایک ہی جگہ تعمیر کر دیا جائے، انہیں الگ الگ جگہوں پر تعمیر کرنا ممکن ہے۔ جب کوئی طالب علم تمام مراحل طے کر لیتا ہے اور اسے داخلہ مل جاتا ہے ۔وہ میڈیکل کالج کے اندر داخل ہوتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں وہ سب کچھ سرے سے ہے ہی نہیں،جس کی وہ توقع کر رہا تھا اس سے طالب علموں کا ذہنی معیار کم ہوتا ہے اور احساس کمتری میں اضافہ ہوتا ہے۔ میڈیکل کالجز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز پروفیسر صاحبان غیر شائستہ ریوں سے طلباء و طالبات خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور یہ خوف دوران تعلیم آخری دن تک ان پر طاری رہتا ہے۔
میڈیکل میں اساتذہ اور طلباء کے مابین ابلاغ کا بڑا اور طویل وقفہ رہتا ہے جو کہ ایک منفی علامت ہے۔ جب ایسی کیفیت ہو گی تو طالب علم سوال کیا خاک پوچھے گا۔میڈیکل کے طلباء کوعذاب میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے طالب علم کا ذہنی معیار اور زوال پذیر ہوتا ہے۔مجھ سے آسان لفظوں میں پوچھیں تو میں یہ کہوں گا کہ یہاں پڑھانے والا آسمان پر براجمان ہوتا ہے اور طلباء فرش پر،تو ابلاغ اور فہم کیسا؟سونے پر سہاگہ یہ کہ امتحان میں طالب علم سے وہ وہ سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا جواب دینا طالب علم کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔اس کی اصل وجہ امتحانات کے عملے اور اساتذہ کے خوف کی وجہ سے طلباء درست جوابات نہیں دے پاتے؟
ہمارے ہاں میڈیکل کالجز میں طریقہ تعلیم بہت ہی قدیم ہے جس کا رواج تمام دنیا سے تقریباً معدوم ہو چکا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ طلباء کے ان امور میں دلچسپی لیتے ہیں جن کا طبی نکتہ نظر سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔طلباء کی تربیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ طلباء کو پتہ ہو کہ انہوں نے مریض اور ان کے لواحقین سے کیسے بات کرنی ہے۔اسے اصطلاح میں طبی ظابطہ اخلاق کہا جاتا ہے مگر یہاں وطن عزیز میں اس کا قطعاً کوئی رواج نہیں۔ طبی ظابطہ اخلاق میڈیکل کا ایک اہم شعبہ ہے جو طب اور مذہب و معاشرتی زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ اخلاقیات طب میں سب سے اہم کردار خود اس پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد یعنی اساتذہ کا ہوتا ہے۔ دنیا کے قریباً تمام معاشروں میں ہی طب کو ایک اعلیٰ اور قابل عزت پیشے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اخلاقیات بھی بلند ہونے کی توقع رکھی جاتی ہے۔
طب کے امتحانات میں عموماً پسند اور نا پسند کا عمل دخل لازمی طور پر ہوتا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ طلباء و طالبات جو بڑے شہر کے باسی ہوتے ہیں اور استاد ان کے اپنے شہر کا ہوتا ہے لہذا ان کی کامیابی تو یقینی ٹھہری،تاہم دور افتادہ علاقوں سے آنے والے طلباء کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔میری حکمران بالا اور متعلقہ افراد سے گزارش ہے کہ خدارا! آنے والی نسلوں کی تعمیر نو کے لیے میڈیکل کی تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔ ابلاغ کے وقفے کو ختم کیا جائے۔طلباء کو طبی ظابطہ اخلاق کی بھرپور تربیت دی جائے۔کلینیکل ٹریننگ کا عمدہ اہتمام کیا جانا چاہئے تاکہ آنے والے دور میں پاکستان کا نام بھی طب کے حوالے سے عالمی دنیا میں مقام حاصل کرے۔
یہاں پر بدقسمتی سے طبی تدریسی عملہ ہی صبح و شام اور رات گئے تک اپنے نجی کلینک دھڑلے سے چلاتے ہیںاور اندرونی سیاست کی بناپر اگاڑ پچھاڑ میں لگے رہتے ہیں جس سے وہ مالی اعتبار سے خوب مستفید ہوتے ہیں مگر ان کی ترجیحات میں کہیں بھی طبی تعلیم و تدریس و تربیت سرے سے شامل ہی نہیں ہے اور ایک بدقسمتی یہ بھی ہے تعلیمی تدریسی عملہ اپنے آپ کو بیوروکریٹ سمجھتا ہے اور اسپتال میں ماہر اور سینئر ڈاکٹرز سے خود تربیت لینا اور طلباء کو تربیت دلوانا اپنی بے عزتی خیال کرتا ہے حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں متعلقہ شعبے کے ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹرز ہی میڈیکل کے طلباء کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور میڈیکل اسکول کے تدریسی عملے کا عملی تربیت میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
ایک اور اہم بات جس کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہاں میڈیکل کی تعلیم اور تربیت نہ تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے راہنما اصولوں پر پوری اترتی ہے اور بین الاقوامی معیار سے تو کوسوں دور ہے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے منتخب ا رکان خود کسی معیار پر پورے نہیں اترتے بلکہ پوری پی ایم ڈی سی کئی مقدمات میں ملوث ہے اور وہاں پر تو جوتوں میں دال بٹ رہی ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ پی ایم ڈی سی کے دفتر اور عمارت کو ممنوعہ علاقہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔دفتر کے کسی ذمہ دار افسر سے بات کرنا تو جوئے شیر لانا ٹھہرا۔