میڈیا وہ گولی ہے جو بارود کے بناء ہے مگر اسکا کام اور اثر بارود سے بھی زیادہ ہے۔ مغربی میڈیا نے ہمیشہ سے اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کیں، نائین الیون کے بعد سے امریکا اور مغربی ممالک نے اسلحہ، ٹیکنالوجی کے ساتھ میڈیا کے کا سہارا لے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے، کبھی مغربی میڈیا میں توہین آمیز خاکے شائع کئے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈمیں قرآن اور اسلامی شعائر کے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں، میڈیا مسلمانوں کو دہشت گرد، بنیاد پرست ثابت کرنے کے لئے اپنی مہم چلائے ہوئے ہے۔ پاکستان اسلام اور کلمہ طیبہ کے نام پر بنایا گیا ملک ہے،اس ملک کے لئے قربانیاں دینے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے جانے کے بعد ”آزاد میڈیا” وطن عزیز میں ایسی بے راہ روی کی لہر لائے گا جس میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری جائیں گی، آئین پاکستان کی حدوں کو عبور کیا جائے گا بلکہ اس سے بڑھ کر قرآن و سنت سے متصادم نظام کو عوام کے ذہنوں میں ڈالا جائے گا، آج ملک میں میڈیا کے ذریعہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے بیرونی طاقتیں سرمایہ کاری کر رہی ہیں،اگرچہ صحافت پیغمبری پیشہ ہے، اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تھی تو انہیں کہا گیا تھا کہ ”اقرا”مگر آج کے اس دور میں دعویٰ تو ہر کوئی کرتا ہے کہ صحافت پیغمبری پیشہ ہے مگر کتنے ایسے لوگ ہیں جو معاشرے میں اس پیشے کی لاج رکھ رہے ہیں۔
صحافت عربی زبان کا لفظ ہے، زمانہ قدیم میں صحافت اور صحیفہ ایسی اصلاحات تھیں جو محض مقدس تحریروں کے لئے مخصوص تھیں، مقدس کتب یا آسمانی نسخے تیار کرنے والے خوش نویس صحافی کہلاتے تھے۔ صحافت کا لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفے کا تعلق زمین سے زیادہ آسمانوں کے ساتھ ہے، صحافت کا تعلق الہام کی روایت سے ہے اس روایت میں خبر کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کے اعلیٰ ترین سطح کے حوالہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخبر صادق کہا گیا ہے،اس لئے علماء ہی حقیقی دین کے وارث ہیں اور حقیقی صحافت بھی علماء کرام کا ہی کام ہے کہ وہ اس کے ذرعہ لوگوں کو دین الہی سے روشناس کرا سکتے ہیں۔
آج اس دور میں اسلامی اصول و قوانین، قرآن و سنت کی روشنی میں کتنے ایسے پروگرامات ہیں جن کے ذریعے نوجوانوں کی اصلاح کی جاتی ہے یا اسکے مقابلے میں اسی ”آزاد میڈیا ” کے ذریعہ نوجوانوں کو بگاڑنے کے لئے، انکے ذہنوں کو جرائم پر آمادہ کرنے کے لئے،ایسے پروگرامات نشر کئے جاتے ہیں جنہیں وہ دیکھ کر باقاعدہ عملی تجربے شروع کرتے ہیں اور پھر انکا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو پراوگرام کے آخر میں دکھایا جاتا ہے،میڈیا کی راہ روی کا سدباب کرنے کے لئے، اور دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے لئے جماعة الدعوة اسلام آباد کے تحت تین روزہ میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں پانچوں صوبوں و آزاد کشمیر سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی،ورکشاپ میں جہاں سینئر صحافیوںکے لیکچر ہوئے جن سے شرکاء نے انکی زندگی کے تجربات سے سیکھا تو وہیں دوسری طرف ایسے لیکچر بھی ہوئے جن میں آزاد میڈیا کے ذریعے اس ملک کی جڑوں و نظریئے کو کھوکھلا کرنے والوں کے حوالہ سے بھی شرکاء کو بریفنگ دی گئی، مرکز قبا اسلام آباد میں ہونے والی تین روزہ میڈیا ورکشاپ میں شرکاء کے لئے قیام و طعام کا بھی بہترین بندوبست کیا گیا تھا، سردی سے بچائو کے لیے لیکچر کے دوران”چائے”سے شرکاء کو ایک بار پھر نیا ولولہ ملتا اور وہ اگلا لیکچر سننے کے لئے تیار رہتے،جماعة الدعوة ایک مذہبی جماعت ہے ،جس کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید ہیں،حافظ صاحب میڈیا کے میدان میں بھی اپنے نوجوانوں کو اتار چکے ہیں جو دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔
Falah Foundation
ریلیف، میڈیکل، تعلیم، دعوت کے میدان میں بھی جماعة الدعوة سرگرم عمل ہے، آزاد کشمیر کے زلزلے سے لے کر پنجاب و سندھ میں سیلاب، بلوچستان میں سیلاب و زلزلہ ہر قدرتی آفت کے موقع پر جماعة الدعوة کے رضا کار سب سے پہلے پہنچے، ریسکیو کا کام کیا اور متاثرین کی مدد کی، آزاد کشمیر میں زلزلے کے موقع پر ریسکیو و ریلیف کے کام کو دیکھ کر اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں نے جماعة الدعوة کو تعریفی سرٹیفکیٹ بھی دیئے بلکہ ایک موقع پر سندھ میں جب سیلاب آیا ہوا تھا تو جماعة الدعوة کا رفاہی ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن اندرون سندھ میں ریلیف کے کاموں میں مصروف تھا، یو ایس ایڈ کے ایڈمنسٹریٹر نے علاقے کا فضائی جائزہ لیا اور دیکھا کہ کون کون کام کر رہا ہے، فلاح انسانیت فائونڈیشن کے کام کر دیکھ کر یو ایس ایڈ کے ایڈمنسٹریٹر نے کراچی سے ریلیف کا سامان منگوایا اور سکھر میں جماعة الدعوة کے ریلیف کیمپ میں وہ سامان جمع کروا دیا، خیر یہ باتیں تو ”جماعة الدعوة” کی وجہ سے آگئیں،بات ہو رہی تھی میڈیا کی تو میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے،تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں میڈیا کا بھر پور استعمال کر رہی ہیں،مذہبی جماعتوں کے لوگوں کا بھی اس میدان میں آنا یقینا خوش آئند ہے کیونکہ اس میدان میں بھی ایسے لوگوں کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔
”تصویر” اگرچہ اسلام میں حرام ہے مگر عالم کفر کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میڈیا کا سہارا لینا مجبوری بن چکا ہے، اسی میڈیا کے ذریعے دین کی دعوت بھی دی جا سکتی ہے،وطن عزیز میں دہشت گردی و تخریب کاری کی لہر کے بعد،مساجدو مدارس،سکولز،پولیس اسٹیشنز سمیت ہر پبلک مقامات پر دھماکوں سے قوم خوفزدہ ہے،مساجد میں اگرچہ جمعہ کے لئے لوگ آتے تو ہیں مگر انکے دلوں سے ڈر نہیں نکلتا ،قائد کے پاکستان کو دشمنوں نے نشانہ بنایا ہوا ہے،ایسی صورتحال میں میڈیا ہی رہ جاتا ہے جس کے ذریعہ سے دعوت کو باآسانی عام کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے ،اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور کہا جاتا ہے۔ حکومتیں، ادارے، مختلف تنظیمیں میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت، نظریات کے فروغ،سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں حتیٰ کی بعض اوقات جنگی مقاصد کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں،ترقی یافتہ دینا میں میڈیا کو باقاعدہ منسوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہی ہو چکا مگر ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کوابھی چند سال ہی ہوئے ہیں،یہ ایک نیا چلینج ہے جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
اگرچہ آج بھی کچھ مذہبی لوگ میڈیا کے حوالہ سے زیادہ ”نالاں” نظر آتے ہیں لیکن اب اکثریت میڈیا کو دعوت کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ میڈیا کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو اپنے حق میں ،اور دعوت کے طور پر استعمال کرنے کے لئے دینی جماعتیں محنت کریں،دعوت کے جذبے سے میڈیا کے ذریعہ اپنی آواز کو دور تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ دین کو لادینی طبقے میں پہنچانے کے لئے صحافت کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں ،نیز دعوت اسلامیہ کو فروغ دے کر جہالت کو دور کرنے کے لئے بھی میڈیا ایک بہترین وسیلہ بن سکتا ہے۔ علماء کرام ،اور دینی جماعتوں کو متحد ہو کر میڈیا کے میدان میں آنا ہو گا کیونکہ اس کے بناء ہم دشمن کی سازشوں ،چالوں کو مقابلہ نہیں کر سکتے۔